پاکستان نے بھارتی میزائل شکن نظام بے اثر بنا کر اسکی اربوں کی سرمایہ کاری ڈبو دی

اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) بیلسٹک میزائل ”ابابیل“ کے کامیاب تجربہ کی بدولت پاکستان، ان چند ملکوں کے کلب میں شامل ہو گیا ہے جو ایک ہی میزائل سے بیک وقت کئی ایٹم بم داغ کر دشمن کے ایک سے زائد اہداف کو تباہ کرنے کی استعداد کے حامل ہیں۔ اس صلاحیت کی بدولت جہاں ایک طرف پاکستان نے سیکنڈ سٹرائیک صلاحیت کو مزید مستحکم کر لیا ہے وہیں اس نے محض ایک میزائل تجربہ کے ذریعہ میزائل شکن نظام کو بے اثر بنا کر اس شعبے میں بھارت کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو ڈبو دیا ہے۔ پاکستان نے نئے میزائل نظام میں ”ملٹی پل، انڈیپنڈنٹ، ری انٹری وھیکل“ ٹیکنالوجی استعمال کی ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں اس اس ٹیکنالوجی کی یہ تشریح کی جاتی ہے کہ ایک ہی میزائل پر متعدد وار ہیڈ نصب کئے جاتے ہیں جو میزائل کے ایک مقررہ فاصلے پر پہنچنے کے بعد خود کار طریقہ سے ، ایک یا ایک سے زائد اھداف کو خود نشانہ بنا سکتے ہیں۔ جو میزائل اس ٹیکنالوجی کے حامل نہیں ان پر ایک ہی وار ہیڈ نصب کیا جا سکتا ہے اور امکان ہوتا ہے کہ دشمن کا میزائل شکن نظام اس میزائل کو روک سکتا ہے۔ دنیا کے بہترین میزائل شکن نظاموں کیلئے بھی ایک میزائل سے داغے گئے متعدد وار ہیڈز کو روکنانا ممکن سمجھا جاتا ہے کیونکہ جب بیلسٹک میزائل اپنا سفر مکمل کر کے دوبارہ کرہ ہوائی میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت صرف میزائل کا گائیڈنس نظام اور وارہیڈز باقی رہ جاتے ہیں۔ سائز میں انتہائی کم اور آواز سے کئی گنا زیادہ رفتار کے ساتھ ہدف کی جانب بڑھنے والے وار ہیڈز کو روکنا ممکن نہیں۔سردست ، امریکہ، روس، چین اور فرانس اس ٹیکنالوجی کے حامل ہیں جب کہ بھارت کی طرف سے حال میں ٹیسٹ کئے گئے بین البارعظمی میزائل ” اگنی پنجم “ کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل میں اس میزائل کو ایم آئی آر وی سے لیس کیا جائے گا۔پاکستان کیلئے ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کے حامل میزائل کی تیاری از حد ضروری ہو گئی تھی کیونکہ بھارت نے پہلے تو روس سے میزائل شکن نظام ” ایس ۔300“ حاصل کیا اس کے بعد اسرائیل کے اشتراک سے میزائل شکن نظام” باراک“ کی تیاری شروع کی اس کے ساتھ ہی دو حفاظتی حصاروں پر مشتمل ایسے میزائل شکن نظام کے تجربات شروع کئے جں میں پرتھوی اور ایڈوانس ائر ڈیفنس کے ”ایشون “ نامی میزائل استعمال کئے گئے۔کہا جاتا ہے کہ بھارت نے 1999 میں کارگل کی لڑائی کے بعد بیلسٹک میزائل ڈیفنس کے شعبہ میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی تاہم روز اول سے عالمی اور خود بھارتی ماہرین اپنی حکومتوں کو خبردار کرتے رہے کہ میزائل ڈیفنس ایک دھوکہ ہے۔ دنیا کا بہترین میزائل ڈنفنس ضمانت نہیں دے سکتا ہے کہ دشمن کے ایٹمی وار ہیڈ کے حامل میزائل کو روک لیا جائے گا لیکن بھارت نے بہرحال اس نظام کی تیاری جاری رکھی۔ ماہرین کے مطابق میزائل شکن نظام تحفظ کا غلط تاثر دیتا ہے جو اس اعتبار سے نہات خطرناک ہے کہ بھارت جیسے ملک میزائل شکن نظام پر بھروسہ کر کے دسرے ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان نے ہمیشہ یہ مﺅقف اختیار کیا ہے کہ بھارت کا میزائل شکن نظام خطہ میں سٹریٹجک توازن کو بگاڑ رہا ہے تاہم بیلسٹک میزائل ابابیل کے کامیاب تجربہ نے اس عدم توازن کو درست کر دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت ابھی تک اپنے کسی میزائل کو ایم آئی آر وی سے لیس نہیں کر سکا۔ ابابیل کے کامیاب تجربہ کے ذریعہ پاکستان نے ایک بار پھر میزائل ٹیکنالوجی میں بھارت پر برتری ثابت کرتے ہوئے اس کے میزائل شکن نظام کو ناکارہ کر دیا ہے۔ ابابیل میزائل کے کامیاب تجربہ پر واشنگٹن کا ردعمل، ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی کے خدوخال بھی واضح کر دےگا۔ ایک ذریعہ کے مطابق میزائل کے تجربہ کا سوچ سمجھ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ایک طرف جہاں اس تجربہ کے ذریعہ بھارت کو واضح پیغام مل گیا ہے کہ اس کا میزائل شکن نظام پاکستان کیلئے اب کوئی وقعت نہیں رکھتا وہیں یہ بھی واضح ہو جائیگا کہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے اس میزائل تجربہ کو کس نظر سے دیکھتی ہے اوبامہ انتظامیہ ایسے تجربات کے ردعمل میں ہمیشہ حد اعتدال میں رہتے ہوئے یہ کہتی رہی ہے کہ ایسے تجربات پر اس کی نظر ہے اور فریقین تحمل سے کام لیں۔ ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کے حامل میزائل پر دو سے لے کر دس تک وار ہیڈز نصب کئے جا سکتے ہیں۔ اہداف کی تعداد کے اعتبار سے وار ہیڈز کی تعداد کا تعین کیا جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن