پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا خاکہ کیسا ہونا چاہیے۔اس حوالے سے ایک عرصے سے بحث جاری ہے۔کچھ کرکٹرز علاقائی کرکٹ کے حق میں ہیں تو کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد محکمہ جاتی کرکٹ کی حمایتی بھی ہے۔ محکموں کی کرکٹ کو سپورٹ کرنیکی سب سے بڑی وجہ کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کا تحفظ ہے۔ محکمے کرکٹرز کی خدمات اچھے معاوضوں پر حاصل کرتے ہیں اور انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کئی فوائد ملتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف علاقائی کرکٹ میں ایسی کوئی کشش نہیں ہے۔ محکموں کا کردار ختم کرنے کی کئی کوششیں ماضی میں ہو چکی ہیں اس وقت بھی مقتدر حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا خاکہ کیا ہونا چاہیے۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کو ختم کرنے میں سب سے مضبوط اور توانا آواز لیجنڈ کرکٹر عمران خان کی ہے وہ ایک عرصے سے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔
1992 ورلڈکپ کے فاتح کپتان مایہ ناز عالمی شہرت یافتہ آل راونڈر عمران خان کیا پاکستان ملک میں موجود ریجنز کی تعداد سے مطمئن ہیں، کیا وہ پاکستان میں جتنی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے اس نظام کو فائدہ مند سمجھتے ہیں، کیا وہ سلیکشن کے نظام کو شفاف سمجھتے ہیں، موجودہ صورتحال میں جب عمران خان ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی سربراہی کر رہے ہیں وہ عوامی رابطہ مہم اور مختلف جلسوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے موجودہ چئیرمین نجم سیٹھی کو سیاسی اختلافات کیوجہ سے ہدف تنقید بھی بناتے ہیں۔ انیس سو بانوے عالمی کپ کے فاتح کپتان عمران خان کے مطابق پاکستان کرکٹ کا موجودہ نظام ناقص ہے اور اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کے نظریے کے مطابق سب سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کا آئین تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کرکٹ بورڈ کے آئین میں وزیر اعظم کی مداخلت یا کسی کو نامزد کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان ڈومیسٹک کرکٹ میں علاقائی کرکٹ کے بہت پرانے حامی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ملک فرسٹ کلاس کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ پانچ ٹیموں کو شرکت کی اجازت ملنی چاہیے۔سندھ، پنجاب،کے پی کے، بلوچستان اور فیڈرل ایریاز کے منتخب کھلاڑیوں کو قائداعظم ٹرافی کھیلنے کا اہل قرار دیا جائے۔ موجودہ نظام کے تحت آٹھ ریجنز اور آٹھ محکموں کی ٹیمیں قائداعظم ٹرافی میں حصہ لیتی ہیں جبکہ گریڈ ٹو میں بھی محکموں اور ریجنز کی ٹیمیں قسمت آزمائی کر رہی ہیں۔ عمران خان کے پسندیدہ نظام کے نفاذ سے پاکستان کرکٹ میں محکموں کا کردار اور سینکڑوں کرکٹرز کا روزگار اس نظام کے نفاذ سے ختم ہو جائیگا۔ عمران خان کے مطابق محکمے علاقائی ٹیموں کے سپانسرز کے طور پر سامنے آئیں لیکن ماضی قریب میں اس حوالے سے ہونیوالی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں پاکستان کرکٹ میں حصہ دار محکمے آزاد حیثیت میں تو کام کرنا چاہتے ہیں لیکن علاقائی ٹیموں کو سپانسر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز کو ریجنز کی سپانسر شپ کا دینے کا منصوبہ بھی فائلوں میٹنگز تک ہی محدود رہا۔ عمران خان موجودہ ریجنل سسٹم کو ختم کر کے ڈویژن کرکٹ کے نظام کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔ پاکستان کرکٹ کا نظام اس وقت سولہ بڑے ریجنز کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ محکموں کو ختم کرنے اور علاقائی کرکٹ کو فروغ دینے پر کئی سابق کرکٹرز عمران خان کے حمایتی ہیں جبکہ کرکٹرز کی بڑی تعداد معاشی تحفظ کے باعث محکمہ جاتی کرکٹ کے حق میں بھی ہے۔ فرسٹ کلاس اور گریڈ ٹو میں اٹھائیس محکموں کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور اب گریڈ ٹو میں بھی کرکٹرز کو کنٹریکٹ دیے جانے کا قانون متعارف کروا دیا گیا ہے ان حالات میں سینکڑوں افراد کا روزگار محکمہ جاتی کرکٹ سے وابستہ ہے۔ یہ نظام ختم ہونے سے ان سب افراد کے بیروزگار ہونے کے امکانات واضح ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمران خان ذاتی حیثیت میں پاکستان سپر لیگ کے حق میں ہیں وہ اس ایونٹ کے مثبت نتائج ملکی کرکٹ کے مستقبل پر دیکھ رہے ہیں وہ اسکے معیار کو بلند کرنے اور اسے مکمل طور پر پاکستان لانے کے حوالے سے اچھی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کے حوالے سے انکا پسندیدہ فارمیٹ فوری طور پر پاکستانی کرکٹ کو ایک بڑے بحران کا شکار کر سکتا ہے۔ لگ بھگ پونے اکیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں جہاں کرکٹ مقبول ترین کھیل ہے کیا اس ملک کے لیے پانچ یا چھ فرسٹ کلاس ٹیمیں کافی ہیں، محکمہ جاتی کرکٹ کے خاتمے کے بعد کرکٹرز کے معاشی مستقبل کا تحفظ کیسے ہو گا، ریجنل کرکٹ کے مضبوط اور فعال نظام کے بعد موجودہ سیٹ اپ سے بورڈ کو کتنا نقصان ہو گا؟ ہماری فرسٹ کلاس کرکٹ پر خاصی تنقید ہوتی ہے ہم خود بھی اس کے ساتھ چھیڑ خانی سے باز نہیں آتے محکموں اور علاقائی کرکٹ کو ایک ساتھ کھلانے کے فارمیٹ پر تین سال سے عمل ہو رہا ہے لیکن تیسرے سال ٹیموں کا انتخاب ڈرافٹ کے ذریعے کر کے ایک نئی چیز کا اضافہ کر دیا گیا۔ نظام کے ساتھ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور تبدیلیوں کیوجہ سے مسائل کا سامنا رہتا ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اسی نظام نے ہمیں بہترین اور ورلڈ کلاس کرکٹرز بھی دیے ہیں باولنگ، بیٹنگ دونوں شعبوں میں قومی کرکٹرز نے کئی عالمی ریکارڈز بنائے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ہمیں اب بھی امپائرنگ، پچز اور میدانوں کے معیار کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور تبدیلیوں کے بجائے اصل مسائل کو حل کر کے زیادہ اچھے کرکٹرز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے زمینی حالات، ضروریات اور مسائل دنیا سے مختلف ہیں سو ہمیں کوئی بھی فیصلہ اپنے زمینی حالات و ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کرنا ہے۔ عمران خان کی رائے بہت مقدم ہے ان کی حیثیت سب سے نمایاں ہے یہی وجہ ہے وہ اکلوتے علاقائی کرکٹ کے فروغ کی بات کرتے ہیں تو ملک بھر میں اس حوالے سے بحث کا آغاز ہوتا ہے۔ لوگ ان کے خیالات کو پسند کرتے اور اہمیت دیتے ہیں لیکن ہزاروں گھرانوں کا روزگار ختم کرنے یا اسکا بہتر اور متبادل انتظام کیے بغیر فورا علاقائی کرکٹ پر چلے جانا ایک بہت بڑے بحران سے دوچار نہیں کر دے گا۔ فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں۔