قائداعظم ثانی سے مجیب الرحمان ثانی تک

طاہرالقادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں نے 17 جنوری کو مال روڈ پر ایک منفرد انداز کا جلسہ کیا، جلسے کے تمام مقررین ہمیشہ کی طرح ماڈل ٹائون کے بے گناہ شہیدوں اور زخمیوںکے لیے زور و شور کے ساتھ انصاف اور صرف انصاف کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ گزشتہ چار سال سے یہ مطالبہ طاہر القادری صاحب مختلف سطحوں پر اٹھاتے چلے آ رہے ہیں۔ جسٹس باقر نجفی تحقیقاتی رپورٹ سے لے کر پنجاب حکومت کی نام نہاد تحقیقات اور JIT کے علاوہ عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں اس عرصے میں تھانہ ماڈل ٹائون کا ریکارڈ ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کی وجہ سے جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔ دسمبر 2017ء میں فیصل ٹائون تھانے میں اس کیس کے مطلق جو شواہد موجود تھے وہ بھی جل کر خاک ہوچکے ہیں کتنے دُکھ کی بات ہے کہ ماڈل ٹائون کے شہیدوں کو انصاف ملنے کی بجائے مختلف حیلوں بہانوں سے معاملے کو لٹکایا جا رہا ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ چیف منسٹر اور دوسرے ذمہ دار لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انصاف دینے کا مطلب کیا ہے یہ تو ایسے ہی ہے کہ ہم قاتلوں اور اس ظلم کے منصوبہ سازوں سے یہ کہیں کہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائو جس کیس کے مدعیوں کی FIR بعد از خرابی بسیار آرمی چیف کی مداخلت کے بعد درج ہوئی ہو اس شہرہ آفاق کیس کو لٹکانے کے سوا قتل عام کے ذمہ دار لوگ اور کیا کرسکتے ہیں پاکستان کے آئین اور قوانین کا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ جب تک اس معاملے کو آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جائے گا یہ مقدمہ زیر التوا ہی رہے گا۔ جمہوریت میں احتجاج کے سوا دوسرا کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔ تحریک ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ کے حوالے سے پیر حمید الدین سیالوی صاحب ملک گیر شہرت کے مالک بن چکے ہیں۔ فیصل آباد، گوجرانوالہ کے زبردست جلسوں کے بعد 19 جنوری کو داتا دربار کے سامنے علماء و مشائخ کنونشن پیر حمید الدین سیالوی صاحب کی عزت و احترام کا سبب تو بنا لیکن حکومت پیر صاحب کو ان کی تحریک ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ اور رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ سے ’’تحریک نفاذ شریعت‘‘ پر محدود کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ سات دنوں میں نفاذ شریعت ورنہ پنجاب کو جام کر دینے کا اعلان جس نے بھی کروایا اس نے حکومت کی مدد کی ہے۔ پیر صاحب یہ بھول گئے کہ ابھی چند روز پہلے ہی علماء مشائخ کے ساتھ چیف منسٹر پنجاب نے کانفرنس میں خطاب کیا تھا اور تعاون کی اپیل کی تھی!گزشتہ 70 سال میں اشرافیہ نے دو کام کئے ہیں۔ اشرافیہ جس میں عرشی طبقہ اور بیوروکریسی شامل ہیں نے ہر شعبۂ زندگی کو کرپشن اور بے حیائی کی نذر کر دیا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں تو ’’رِگنگ ٹیکنالوجی‘‘ بام عروج پر پہنچا دی گئی چنانچہ یہ الیکشن RO کے الیکشن کہلاتے ہیں۔ سب جانتے ہیں سپریم کورٹ نے الیکشن اصلاح کے لیے جو تجاویز دی تھیں حکومت نے وہ تجاویز بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں ہیں۔ عمران خان کے احتجاج، دھرنے اور شور مچانے پر بھی پارلیمنٹ نے کچھ نہیں کیا۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں نے طویل سماعت کے بعد وزیراعظم کو نااہل قرار دے کر سنگین الزامات کے ریفرنس نیب کو بھجوا دیئے جن کی آج کل سماعت ہو رہی ہے۔ وہ دن اور آج کا دن نااہل سابق وزیراعظم نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان لگائی ہوئی ہے۔ نااہل وزیراعظم نے اعلیٰ ترین پارلیمانی اقدار کو پروا ن چڑھانے کی بجائے ایک ضدی بچے کی طرح وفاقی حکومت اور پارلیمنٹ کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے اثرو رسوخ اور وسائل کو ملک میں انتشار پھیلانے کی کوششوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ تازہ ترین ہری پور میں استقبال اور اشتعال انگیز تقریر اس کی ایک مثال ہے۔موجودہ قوانین اور طریقہ کار کے تحت 2018ء کے الیکشن ہوئے تو سرکاری عہدہ داروں، زمینداروں، تمن داروں، نوابوں، وڈیروں، پٹواریوں، تحصیل داروں، سرمایہ داروں، سمگلروں اور پولیس کی نگرانی میں ہوئے تو بہتر نتیجہ نکلنے کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔ پاکستان میں تعلیم کی کمی اور غربت نے ووٹ کے تقدس کو پامال کر کے رکھ دیا ہے ٹریڈر یونینز، چیمبر آف کامرس، بلدیاتی ادارے ہوں یا قومی انتخاباب، سب کے سب ایک ہی روایت رکھتے ہیں کہ جیسے بھی ممکن ہو جائز یا ناجائز ہر صورت میں الیکشن جیت کر لگائے ہوئے سرمائے کو ہزار گنا بڑھا کر وصول کرنا، اور اکیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ پر فخر کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرنا بھلے وہ مملکت کی جڑیں ہی کھوکھلی کر دیں۔ الیکشن کے ضابطے حکومت کی جانب سے لگائی گئی نام نہاد پابندیاں صرف اور صرف لفظوں کا ڈھیر ہوتی ہیں۔ جب تک آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن نہیں ہوتے، پاکستان کے حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ چور، ڈاکو، سمگلر الیکشن جیتنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ بیورو کریسی کے اندر جو نظم و ضبط تھا، قواعد تھے انہیں بیورو کریسی کے ہی ہاتھوں تباہ کروا دیا گیا ہے جبکہ اسی نظام کے تحت انگریز پونے دو سو سال برصغیر پر حکومت کر گیا ہے۔ انگریز کے دور میں کسی جج یا بیورو کریٹ یا پولیس کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ ملک کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکے۔ 1947ء سے 1965ء کی جنگ تک بیورو کریسی اور سوسائٹی کسی حد تک کنٹرول میں تھی، مراعات یافتہ عرشی طبقے کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں جب سے اختیار اور اقتدار آیا ہے تباہی اور بربادی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہے۔ جعل سازی اور منافقت کے اس دور میں الیکشن سے پہلے ’’خرابیوں‘‘ کا دور کرنا بہت ضروری ہے۔ ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم بننے والا قدم قدم پر کہتا ہے’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ میرے پاس اگر اثاثے اور دولت ہے تو تمہیں کیا ہے؟ ریاست کے ذمہ دار اداروں نے جو خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اس کا فائدہ ماضی میں مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن نے اٹھایا تھا وہی آج پاکستان کے نااہل وزیراعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اگر مجھے مزید تنگ کیا تو میں بھی شیخ مجیب الرحمن بن جائوں گا‘‘ وہ شیخ مجیب الرحمن کو محب وطن پاکستانی بیان کر رہے ہیں جسے ہم نے غدار بنایا!

ای پیپر دی نیشن