زینب سمیت 10 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا‘ ملزم: جیکٹ کا ٹوٹا بٹن گرفتاری کی وجہ بنا‘ تفتیشی

لاہور+ قصور+ شیخوپورہ (نامہ نگار+ اپنے نامہ نگار سے+ نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ زینب قتل کیس کے گرفتار ملزم عمران کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ دیدیا ہے جس کے بعد پولیس نے ملزم کو اپنی حراست میں لے لیا اور سخت سیکورٹی میں پولیس ملزم کو واپس لے گئی۔ ملزم عمران کو سخت سکیورٹی حصار میں جج سجاد احمد کے روبرو پیش کیا گیا۔ عدالت کے اندر اور باہر سکیورٹی کے سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے یہاں تک کہ کسی عام شہری کو بھی مقررہ حد سے آگے آنے کی اجازت نہ تھی۔ ملزم عمران کیخلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کے پہلے روز ملز م کی طرف سے کسی وکیل نے اپنا وکالت نامہ عدالت میں جمع نہیں کروایا۔ عمران کو شام چار بجے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزم عمران کے اعترافی بیان کی ویڈیو نجی ٹی وی نے جاری کی ہے۔ ملزم عمران نے اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ زینب کو بہانہ بناکر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ زینب نے سوال کیا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ زینب سے کہا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں۔ زینب سے کہا کہ ہم جلدی گھر پہنچ جائیں گے۔ دور ایک لائٹ کو دیکھ کر کہا کہ ہم قریب پہنچ گئے ہیں۔ جب وہاں پہنچے تو وہاں ایک بندہ کھڑا تھا پھر میں نے زینب سے واپسی کا کہہ دیا۔ علاوہ ازیں زینب کے قاتل سے متعلق لرزہ خیز انکشافات ہوئے ہیں۔ ملزم عمران علی نے اغوا کے بعد ڈیڑھ گھنٹے کے اندر بچی کو زیادتی کرکے قتل کردیا۔ زینب کو ڈھونڈنے کا ڈرامہ بھی رچایا۔ ملزم نے تفتیش کے دوران 10بچیوں سے زیادتی و قتل کا اعتراف کیا۔ ملزم چیزیں دلانے کے بہانے اغوا کرتا تھا۔ جیکٹ کے ٹوٹے بٹن نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ ملزم نے دوران تفتیش دوسری ہی بات پر سارے کرتوت کی کہانی اگل ڈالی۔ ننھی کلیوں کا گلا گھونٹ کر قتل کرتا رہا۔ قاتل کی گرفتاری میں60 سے 70 ہزار کے قریب افراد تفتیش کے پہلے مرحلے میں شامل ہوئے، قصور شہر میں مختلف افراد کو جسمانی اور چہرے کے خدوخال کی بنیاد پر مزید چھان بین کے عمل سے گزارا گیا جس کے بعد تفتیشی ٹیمیں روٹ پر نکلیں اور اس علاقے کے گھر گھر جا کر ان افراد کی حتمی فہرست بنائی گئی جن کا ڈی این اے کیا گیا۔ تفتیشی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے کہا کہ تفتیش کے عمل سے تقریباً 1100 افراد گزرے جن کا ڈی این اے کیا گیا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے اس مرحلے پر پاکستان فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے ایسے افراد کی فہرست سامنے آئی جن کے نتائج قاتل کے ڈی این اے کے قریب ترین تھے۔ فہرست سامنے آنے کے بعد پولیس نے چھاپے مارنے شروع کئے۔ سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں ملزم عمران علی نے داڑھی رکھی ہے اور ایک زِپ والی جیکٹ پہن رکھی ہے جس کے دونوں کاندھوں پر دو بڑے بٹن لگے ہوئے ہیں مگر مسئلہ یہ تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں جیکٹ کا رنگ سفید نظر آ رہا ہے جو حقیقی رنگ نہیں مگر یہ کوئی بھی گہرا رنگ ہوسکتا تھا۔ چھاپے کے دوران عمران علی کے گھر سے ایسی ہی ایک جیکٹ ملی جس کے دونوں بٹنوں کی مدد سے پولیس جیکٹ کے ایک ٹوٹے بٹن کی مدد سے ملزم کی گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کا ڈی این اے جب مکمل میچ ہوا تو پھر صرف گرفتاری ہی آخری کام رہ گیا تھا جس میں اس کی والدہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مدد کی۔ ملزم سے تفتیش کرنے والے پولیس افسران کے مطابق ملزم نے بہت زیادہ پس و پیش نہیں کی اور دوسری بات پر ہی اس نے سارے قتل اور جرائم مان لئے۔ ملزم پولیس کی توقع کے برعکس اتنا چالاک اور ہوشیار نہیں تھا بلکہ چند پولیس افسران نے تو یہ تک کہا کہ اگر پولیس اس کیس کو شروع سے بلکہ پہلے قتل کے بعد ہی سنجیدگی سے لیتی اور درست لائن پر تفتیش کرتی تو معاملات اتنی سنگینی نہ اختیار کرتے۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ زینب کو قتل کرنے کے بعد وہ میلاد کی محفل میں گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے محفل میں جانے سے قبل وضو کیا تو ملزم کا جواب نفی میں تھا۔ ملزم کی والدہ اور چچا نے بتایا کہ انہیں ٹی وی پر فوٹیج دیکھنے کے بعد شک تو ہوا تھا اور باتیں شروع ہوئیںکہ اس کی شکل ملتی ہے مگر کسی نے پولیس کو بتانے کی زحمت نہیں کی۔ پولیس کے مطابق ملزم نہ صرف سیریل کِلر یعنی قاتل ہے بلکہ ایک سیریل پیڈوفائل بھی ہے جو نفسیاتی حد تک بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہے۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ پکڑے جانے کے ڈر سے بچوں کا گلا گھونٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتارتا تھا۔ ملزم نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے پانچ بچیوں کو زیر تعمیر گھروں میں ریپ کر کے قتل کیا اور نعش قتل کے دن ہی ٹھکانے لگا دی جبکہ زینب سمیت تین لڑکیوں کو کوڑے کے ڈھیر کے قریب یا اسی پر ریپ کر کے قتل کر کے پھینک دیا جہاں سے زینب کی نعش ملی تھی۔ این این آئی کے مطابق ملزم عمران نے دوران تفتیش انتہائی سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے 10 بچیوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کرلیا۔ نجی ٹی وی نے جے آئی ٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ملزم عمران نے دوران تفتیش انکشافات کیے کہ اس نے زینب کو پونے 7 بجے اغوا کیا، مناسب جگہ نہ ملنے پر زینب کو ڈیڑھ کلو میٹر سے زائد ساتھ لے کر گھوما، زیر تعمیر سوسائٹی میں پکڑے جانے کے خوف سے کوڑے کے ڈھیر پر زینب کو لے گیا۔ ملزم عمران نے مزید بتایا کہ وہ جن گھروں میں کام کرتا انہی کی بچیوں کو اغوا کرتا، 8بچیوں سے زیر تعمیر مکانوں جب کہ 2 سے کوڑے کے ڈھیروں پر زیادتی کی۔ ذرائع کے مطابق ملزم عمران نے سنسنی خیز انکشاف میں بتایا کہ وہ بچیوں کو نیاز کے چاول، ٹافیاں اور خاص کر جو بچیاں بالوں میں کلپ لگاتی تھیں انہیں کلپ دلوانے کے بہانے ساتھ لے جاتا تھا۔ عمران نے مزید بتایا کہ اس نے چلڈرن ہسپتال میں داخل کائنات کو دہی دلوانے کے بہانے اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ جے آئی ٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم عمران چند روز سے زینب کے گھر بار بار جاکر کئی گئی گھنٹے بیٹھا رہا، عمران کے 8بچیوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کرگئے ہیں جبکہ دو کے ڈی این اے فارنزک شواہد ضائع ہونے کے باعث میچ نہیں کیا جاسکا لیکن ملزم نے خود 10 بچیوں سے زیادتی کا اعتراف کیا ہے۔ قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کمسن بچوں کیساتھ زیادتی، اغوا اور قتل کی وارداتوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کیلئے صوبہ بھر کے تمام ڈی پی اوز کو خصوصی ٹاسک دیدیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...