پارلیمنٹ میں ممبران نہیں آتے۔ وہ منتخب ہی اسی لیے ہوتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جائیں اور قانون سازی کریں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ جو قانون بناتے ہیں ان کی خلاف ورزی خود کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
کوئی بتائے کہ نواز شریف کتنی بار چار برسوں میں پارلیمنٹ گئے۔ آج کے وزیراعظم کتنی بار گئے ہیں۔ عمران خان کتنی بار گئے ہیں۔ پارلیمنٹ پر ممبر پارلیمنٹ شیخ رشید نے لعنت بھیجی ہے۔ عمران نے بھرپور تائید کی ہے۔
یہ تو بتایا جائے کہ محمود خان اچکزئی پاکستان کے خلاف بولتے ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہو کے بولتے ہیں۔ کسی پارلیمنٹرین نے ان کی زبان نہیں پکڑی۔ مگر اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کو محسوس کر رہے ہیں۔
آج تک ہماری پارلیمنٹ نے کیا کیا ہے؟ کونسا ایسا قانون بنایا ہے جس پر عوام کو سکھ محسوس ہوا ہے۔ جو قوانین بنائے جاتے ہیں۔ اس کی دھجیاں بکھیرنے والے بھی پارلیمنٹرین ہوتے ہیں۔ ہمارے یہ پارلیمنٹرین اپنے لوگوں کو خود پھنسواتے ہیں پھر انہیں چھڑواتے ہیں اور اپنے ووٹ پکے کرتے ہیں۔ ان کا صرف ایک کام ہے کہ کس طرح ہم نے پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنا ہے۔ اور اپنے مفادات حاصل کرنا ہے۔
آج تک کوئی غریب قابل اور اچھا انسان رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکا۔ وہ تو اس کے لیے الیکشن بھی نہیں لڑ سکتا۔
عمران خان اور شیخ رشید سے پہلے سابق وزیراعظم اور بزرگ رکن پارلیمنٹ ظفراللہ جمالی نے دعا کی کہ اے اللہ میرے مرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو موت دے دے۔ اس کا مطلب پارلیمنٹرین کی کارکردگی سے ہے۔ پارلیمنٹ تو ایک بلڈنگ ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ نے کچھ نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کا کام صرف قائد ایوان کا انتخاب ہے اس کے علاوہ کیا ہوتا ہے؟ پارلیمنٹرین بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ اس میں پارلیمنٹ میں آنے والوں اور نہ آنے والوں میں کوئی فرق نہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا گیا کہ یہ قرآن میں کہا گیا ہے، جھوٹے پر خدا کی لعنت۔ تو پھر میں معذرت سے کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے جھوٹ بولنے میں کچھ عار محسوس نہیں کرتے۔ سیاستدانوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔
ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے لیتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کے افسران اور پولیس افسران لگواتے ہیں اور پھر ان سے جھوٹے مقدمات میں رعائتیں لیتے ہیں۔ یہ جھوٹ نہیں تو کیا ہے؟ اور جھوٹے پر لعنت خدا نے بھیجی ہے۔
یہ جمہوریت ہے کہ ایک ہی شخص اور اس کے رشتہ دار بھانجے بھتیجے ہمیشہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔ یہ اب ایک پروفیشن ہے ایک کاروبار۔ پوچھا جائے کہ تم کیا کرتے ہو تو کہا جاتا ہے کہ شعبہ تعلیم میں ملازمت کرتا ہوں۔ فلاں محکمے میں ہوں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میں سیاست کرتا ہوں۔ سیاست کرنا مثبت معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ جو آدمی فراڈ کرتا ہو اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑا سیاسی ہے۔
’’صدر‘‘ آصف زرداری بہت گہرے اور سیانے سیاستدان ہیں۔ انہوں نے بہت خاص بات کی ہے۔ تنقید کرنا ہے تو حکومت پر کرو۔ پارلیمنٹ پر نہ کرو۔ حکمران ہی پارلیمنٹ کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ ہی منتخب کرتی ہے۔
مجھے معلوم نہیں کہ شیخ رشید نے پارلیمنٹ کی کونسی خامی کے حوالے سے اس پر لعنت بھیجی ہے۔ میں شیخ رشید کو جانتا ہوں۔ وہ دلیر اور دل والا لیڈر ہے۔
اپنا نقطہ نظر اور نظریہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مگر آج نظریہ تو رہا ہی نہیں۔ نظریاتی سیاست اب ہوتی نہیں ہے۔ سیاست کرنے کے کچھ قاعدے قرینے ضرور ہیں۔ مگر آج ان کا بھی کچھ خیال نہیں رکھا جاتا۔
اس وقت مسلم لیگ ن لیگ ہے۔ نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد پارٹی کا یہ نام غیرمناسب ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی مسلم لیگیں ہیں تو وہ اپنی پارٹی کو کیا نام دیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایک سچے پاکستانی کو ایسے ہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات میں قائداعظم کو یادگار رکھے۔
ایک مقبول اور پسندیدہ شاعر احمد فراز کی شخصیت اور شاعری کے لیے اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے ایک اچھے شاعر محبوب ظفر نے بہت اعلیٰ کتاب لکھی ہے۔ اس کا پیش نامہ اکیڈمی ادبیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد قاسم بھگیو نے لکھا ہے یہ ایک سلسلہ ہے جو پاکستان کے معروف اور اہم ادیبوں شاعروں کے بارے میں شروع کیا گیا ہے۔ اس کے بھگیو صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایک اعلیٰ کتاب لکھنے پر محبوب ظفر کے لئے بھی مبارکباد۔
میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں