سانحہ ساہیوال۔۔۔ فیصلہ عمران خان کا ہو گا!

سانحہ ساہیوال نے ہمارے پولیس کلچر اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی اور ساکھ کے سامنے پھر کئی اور خوفناک سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں کیونکہ اس سانحہ میں جو کچھ ہوا اس کی ویڈیو نہ صرف منظرعام پر آئی بلکہ سوشل میڈیا سے وائرل ہونیوالی ویڈیوز بعدازاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خبروں کی صورت میں بھی سامنے آ گئیں۔ دراصل سانحہ ساہیوال سی ٹی ڈی کی طرف سے انسانیت کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے اور یہ واقعہ تبدیلی کی دعویدار حکومت عمران خان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہمارا معاشرہ گزشتہ کئی عشروں سے پستی اور زوال کا شکار ہے۔ اس معاشرے میں کسی کو کسی دوسرے کے دکھ درد سے کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن سانحہ ساہیوال میں چونکہ خون ناحق بہا اس لئے آواز خلق نقارہ خدا بن چکی ہے۔ اتنا احتجاج اور عوام کی طرف سے اتنی نفرت کا اظہار میں نے پہلے کسی واقعہ میں نہیں دیکھا اور واقعہ بھی کون سا کوئی معمولی واقعہ تھا۔ بغیر نمبرپلیٹ کی گاڑیوں پر دندناتے سی ٹی ڈی اہلکار دن دیہاڑے ایک بڑی شاہراہ پر اپنی گولیوں کی تھرتھراہٹ سے معصوم اور بے گناہ شہریوں کا قتل عام کرتے دیکھے گئے جس میں معصوم بچوں کی آہ و پکار بھی شامل ہے۔ اب اس واقعہ کے بعد جو حکومتی موقف، ردعمل اور کارروائی ابتدائی جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہے اس پر بہت سارے تجزیہ نگار اور سیاسی حلقے حکومت پنجاب کی کارکردگی کو بھی چیلنج کر رہے ہیں لیکن ہماری نظر میں یہ چیلنج دراصل وزیراعظم عمران خان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف نے بھی کبھی نہیں چاہا تھا کہ پنجاب میں کوئی مضبوط وزیراعلیٰ آئے۔ شہبازشریف سے پہلے نوازشریف نے بھی غلام حیدر وائیں کی صورت میں ایک کمزور وزیراعلیٰ سامنے لانے کی کوشش کی تھی۔ شاید یہی معاملہ موجودہ وزیراعظم کیساتھ ہے اور وہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب کی سیج پر سجائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کئی سالوں کی سیاسی جدوجہد کے بعد بالاخر تبدیلی، انصاف اور ایک پاکستان کا نعرہ مشہور کرواتے ہوئے اقتدار میں آئے۔ انہوں نے خود کئی مرتبہ پنجاب پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جب شہبازشریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے پولیس کی وردیاں تبدیل کیں تو عمران خان نے کئی جلسوں میں کہا کہ وردیاں تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہو گا پولیس کلچر تبدیل کرنا پڑیگا۔ سانحہ ساہیوال کے بعد پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے وزیراعظم کو خود عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے اسکا سارا بندوبست کرنا وزیراعظم ہی کی ذمہ داری ہے۔ اس کلچر کو تبدیل کئے بغیر ایسے ہی خدشات موجود ہیں اور سو فیصد اعتمادکے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اس کیس کا کلچر تبدیل کئے بغیر آئندہ ایسا ہی کوئی ڈراپ سین ہو گا اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ صوبائی وزیرقانون راجہ بشارت متواتر بضد ہیں کہ یہ آپریشن سوفیصد درست تھا۔ وہ ذیشان کو دہشتگرد ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں دوسری طرف یہ بھی موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ آپریشن خفیہ ادارے کی خفیہ رپورٹ پر کیا گیا۔ اگر ایسا ہے تو کیا اس کیس کو آئندہ کسی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر عدالت میں خراب کیا جا سکتا ہے؟ اسکے شکوک و شبہات مسلسل موجود ہیں۔ سانحہ ساہیوال پر اپوزیشن کی تنقید کے بعد کراچی کے راؤ انوار اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کو جواز بنا کر حکومت اپوزیشن کو تو طعنہ زنی کر سکتی ہے لیکن جو واقعہ ہوا ہے اسکی تردید ناممکن ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد اے آئی جی سی ٹی ڈی کو نوکری سے فارغ کرنے اور ذمہ دار اہلکاروں کے چالان انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کرنے کے اعلانات کے باوجود یہ جے آئی ٹی رپورٹ اور منظرعام پر آنے والی ویڈیوز آپس میں متصادم ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر نہیں لے رہے اور آئندہ دنوں میں ابتدائی جے آئی ٹی رپورٹ پر جو کارروائی سامنے آئی ہے اسی کا ڈنکا پیٹنے کی کوشش کی جائیگی حالانکہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اگر یہ پرانے پاکستان کی بات ہوتی تو پھر کہا جا سکتا تھا کہ بھرپور کارروائی ہو چکی لیکن نئے پاکستان کی توقعات کے برعکس یہ کارروائی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ البتہ یہ کہنا بڑی حد تک درست ہے کہ راجہ بشارت کی صورت میں ق لیگ نے پرانے پاکستان کا حکومتی کلچر دہرایا اور نئے پاکستان میں نئے وزیراعلیٰ پنجاب ساہیوال ہسپتال میں چند پولیس افسران کے ہاتھوں پھول کا گلدستہ انہیں پکڑانے اور انکی طرف سے آگے متاثرہ بچوں کو دینے سے نئے پاکستان کی ساکھ پر کئی دھبے لگے ہیں۔ عمران خان کو شاید اس کی فکر اس لئے نہ ہو کہ وہ پنجاب میں خود موجود نہیں لیکن انہیں ادراک کرنا ہو گا کہ ایسی حرکتوں اور اقدامات سے سارا نزلہ تحریک انصاف کی طرف ہی منتقل ہو رہا ہے۔ یہ کیس براہ راست عوامی جذبات، احساسات اور انکی ان محرومیوں سے تعلق رکھتا ہے جس پر تحریک انصاف نے انصاف کے نعرے کی چھتری کھول دی تھی۔ اب کیا ہونا چاہیے۔ زمینی حقائق کے مطابق اس کیلئے اصولی اور قانونی فیصلے کرنا عمران خان کا اصل چیلنج ہے اس سے عمران خان کی مستقل مزاجی اور ان کے وژن کا بھی عملی مظاہرہ سامنے آئے گا۔ دیکھتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں یا پھر واقعی ہی حکومت اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ یہ معاملہ موجودہ حکومت پر بھی فٹ بیٹھے گا۔ فیصلہ عمران خان کا ہو گا اور انہیں یقینا کچھ کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...