نضال حسن عرف ابو نضالّ(ابو ندال) ماہر نفسیات تھا، اسے لوگوں کی نفسیاتی پیچیدگیاں سدھارنے میں مہارت تھی،امریکی فوج میں میجرتھا، 2009 میں خود نفسیاتی مریض بن گیا‘ ساتھیوں پر فائرنگ کرکے تیرہ کو موت کی لکیر پار کرادی۔ عدالت سے موت کا سزاوار ٹھہرا۔1992ء ٹنڈو بہاول میںمائی جندو کیس میں میجر ارشد کو کورٹ مارشل کے ذریعے پھانسی اور ساتھیوں کو عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔محافظ ہی قاتل بن گئے۔ قصہ زمین کے جھگڑے کا تھا، جسے وڈیرے دوست کے ایماء پر’’را‘‘ کا ایجنٹ بنا دیا گیا۔ مائی جندو کے دو بیٹوں سمیت نو لوگ مارے گئے تھے۔ فوجیوں کو سول عدالتوں سے بھی سزائیں ہوئیں، مثال: راولپنڈی سازش کیس میں میجر جنرل اکبر خان اور دیگر کرداروں کو قید کی سزائیں ہیں۔سانحہ ساہیوال میں دو خواتین سمیت چار افراد مارے گئے، جے آئی ٹی نے ابتدائی رپورٹ میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دیا۔دہشتگردوں اور دہشت گردی کے خاتمہ پر تعینات اہلکار خود دہشتگرد بن گئے۔
خلیل اور اسکی فیملی بے گناہ تھے، معصوم بچے یتیم ہو گئے جبکہ ذیشان کے بارے میں ہنوز شکوک ہیں۔بالفرض ذیشان دہشتگردتھا، اسے زندہ گرفتار کرنا مشکل نہیں تھا، اپریشن بھونڈے طریقہ سے کیا گیا۔ دہشتگردوں کو مقابلے میں مارنے کے واقعات عموماً ہوتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دہشتگردوں کو ہلاک کرکے لاشیں وہیں پھینک دی جائیں۔ وزراء اور سی ٹی ڈی کاجو موقف تھا، ویڈیو سامنے نہ آتی تو اسی کو حتمی سمجھا جاتا اوریہ خون خاک نشیناں رزق خاک ہوجاتا۔اہلکار ہیرو اور انعام و کرام کے حقدار قرار پاتے۔معروف صحافی کریم اللہ گوندل کا تجزیہ ہے ’’سی ڈی والوں کو اوپر سے حکم ملا کہ دہشتگرد کار میں آرہے ہیں انکے پاس خود کش جیکٹس، بارود اور بہت سا مواد ہے، ان کو سنبھلنے سے پہلے مار دیں۔جنہوں نے یہ حکم دیا انہیںپسِ زنداں ہونا چاہئیے‘‘۔
جو کچھ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا‘ اس سے لوگ میڈیا کے توسط سے آگاہ تھے۔جے آئی ٹی قوم کو بتائے کہ اس واقعہ کے پس پردہ حقائق کیاہیں؟ سی ٹی ڈی والے کسی کیلئے استعمال تو نہیں ہوئے؟یا ان بھانگڑیوں کی عقل و فراست ہی اتنی تھی؟ کلیئر کٹ ویڈیو اتفاقا ً بنی یا پلاننگ کے تحت بنائی اور میڈیا کو پہنچائی گئی۔ اس بھیانک واقعہ کے بعد فوری طور پر سیاسی منظرنامہ تبدیل ہو گیا۔ کچھ بے حس عناصر اس دلدوز واقعہ سے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں ایسے واقعات پر بلاتاخیر از خود نوٹس لے لیا جاتا تھا مگر جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے پہلے روز کے بیان’’نوٹس صرف قومی معاملات پر لیا جائیگا‘‘ پر کاربندنظر آئے۔ ایسے واقعات سوموٹو کی ضرورت نہیں کیونکہ تفتیش کی سمت درست ہے، تاہم ایک بے چین روح نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرنا فرض عین سمجھا۔اپوزیشن اس معاملے کو لیکر وزیراعظم عمران اوروزیراعلیٰ بزدار کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ن لیگ اورپی پی پی کی ایسے معاملات میں قائم کردہ درخشاں روایات عمل کی متقاضی ہیں۔کچھ وزراء کے بیانات نے صورتحال کو کنفیوز کیا تاہم صدر، وزیراعظم نے فوری طور پر اظہار ہمدردی کیااور سخت نوٹس لیا۔پنجاب حکومت نے لواحقین کی مدد کیلئے دو کروڑ روپے کا اعلان کیا‘ اس پر سید خورشید شاہ فرماتے ہیں۔’’ اگر مرنے والے دہشتگرد تھے تو انکے امداد کیوں؟‘‘۔ دو کروڑ بہت بڑی رقم ہے‘ اس کا ٹین پرسنٹ بھی بیس لاکھ بنتا ہے۔
سینٹ اور قومی اسمبلی میں شہبازاور زرداری کی متحدہ اپوزیشن کی گرج چمک اور شعلہ باری و اشتعال سوا نیزے پر رہا۔ شہبازشریف کی زرداری سے نفرت انکی کرپشن کے باعث ساتویں آسمان پر رہی ہے۔ الٹا لٹکانے، بھاٹی گیٹ میں گھسیٹنے اور گھمانے کے بیانات دُہرانے کے نہیں۔ چھوٹے میاں کرپشن کے الزامات کے بھنور میں پھنسے تو زرداری مسیحا نظر آئے، ا۔ زرداری کو سہارے کی ضرورت تھی جو تنکا نہیں شہتیر کی صورت میں میسرآگیا۔ اب برکت ہی برکت ہے، دامَ برکاتہم۔ ہم عوام اور پارٹیوں کے خواص اپنے مرشد و پیشوائوں جیسے لیڈروں کی صداقت و دیانت اور خلوص پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔آج کی اپوزیشن کل پی ٹی آئی سے بھی بغل گیر ہوسکتی ہے ۔
سینٹ‘ قومی‘ پنجاب اور سندھ اسمبلی میں ہنگامہ اور شدید احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن نے جے آئی ٹی کی تشکیل کو مسترد کر دیاتھا۔ چُپ اس وقت سادھی جب نیم وزیرداخلہ شہریار آفریدی نے کہا ماڈل ٹائون‘ نقیب اللہ قتل، سانحہ ساہیوال سمیت تمام کیس کیوں نہ فوجی عدالت کے حوالے کر دیئے جائیں۔ انہوں نے سبزہ زارجعلی مقابلہ، عزیر بلوچ کیس کا تذکرہ نہیں کیا۔ سندھ اسمبلی میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ طوفان بن کر مرکزی حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہاتے نظر آئے۔ فرمایا پاکستان کو ڈوبتے دیکھ رہا ہوں۔ آج جن کی اپنی نیا ڈوب رہی ہے‘ ان کو پاکستان ڈوبتا نظر آتا ہے۔ کرپشن کیسز’’ مُکت‘‘ ہو جائیں تو پاکستان آسمان کی بلندیوں کو چھوتا اور سمندروں کے سینے چیرتا نظر آئیگا۔
سانحہ ساہیوال کے پیش نظر تمام سیاسی ایشوز پس منظر میں چلے گئے مگر کچھ ’اعلیٰ ظرف‘ لوگوں نے جسٹس ثاقب نثار کی کردارکشی کا سلسلہ عبادت سمجھ کر جاری رکھا۔ ظرف کے کانگڑی پہلوان اب جس طرح پلٹ کر جھپٹ رہے ہیں‘ ان پر تبرا اور تیراندازی کررہے ہیں، یوں نہ کرتے،ووں کرتے کا بھاشن دے رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ انکے بطور چیف جسٹس دور میں کہتے تو اصلاح احوال کی توقع تھی۔ اب بغض‘ کینہ اور غبار دل نکالنے کا کیا فائدہ؟ چھوٹے کام کرنیوالوں کے بڑے نام ہوگئے ہیں تو کردار بھی بڑا ہوتاتو سونے پر سہاگہ تھا۔ ایک سرمئی لیڈر نے شعر پڑھا جو سب سے زیادہ خود اسی پر منطبق ہے، ماورائے ظرف اکابرین کی خدمت میں خصوصی طورپر پیش ہے…؎
جب کمینے عروج پاتے ہیں‘ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں
کتنے کم ظرف ہیں غبارے‘ چند پھونکوں سے پھول جاتے ہیں