کسی بھی ملک میں ماروا عدالت یا قانون بے گناہوں کے پولیس یا اداروں کے ہاتھوں قتل کئے جانے کی کوئی روایت نہیں ہے ،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں اپنے شہریوں کو اپنے ملک میں اور کسی دشمن ملک میں بھی مکمل تحفظ فراہم کرتی ہیں ،اس کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں ،مثلاً امریکن ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں حساس اداروں کے دو ملازمین کو اپنی جاسوسی کے شبے میں قتل کردیا تھا لیکن امریکن حکومت نے اپنے اس شہری کو باحفاظت پاکستان سے نکال لیا ،اس رہائی کے بدلے کروڑوں ڈالر خون بہا ء ادا کیا یہ الگ بات ہے کہ متاثرہ خاندان امریکن ڈالر ہضم نہ کر سکا اور تباہ و برباد ہو گیا ۔بطور خون بہاء ملنے والی بھاری رقم نے خونی رشتوں میں دراڑ ڈال دی ،اور سارا خاندان بربادی کی تصویر بن گیا ، اسی طرح گوجرخان سے تعلق رکھنے والے ایک برطانوی نژ ادکوجیسے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی ،اسے برطانیہ نے با حفاظت رہائی دلوا ئی، اس کے برعکس پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ،یہا ایف آئی آر درج ہوجائے تو پولیس فوراً لنگوٹ کس لیتی ہے ،یہ بھی ایک المیہ ہے کہ پولیس جب چاہے اور جس جگہ چاہئے بے گناہ انسانوں کو پھڑکا دیتی ہے ،اور دنیا جہاں کی کالک اس کے منہ پر مَل دی جاتی ہے ،اور ماورا قانون قتل میں ملوث اہلکاروں کو ریاستی ادارے مکمل تحفظ دینے میں لگ جاتے ہیں ۔
سانحہ ساہیوال بھی اسی سوچ و فکر کا شاخسانہ ہے کہ جہاں معصوم بچوں کے ساتھ شادی پر جانے والی فیملی کے تین بندوں جن میں خاندان کا سربراہ خلیل اس کی اہلیہ نبیلہ اور بیٹی کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کو بھی سرعام گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا ۔اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سارا قتل عام معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا جن میں دو بچیوں کے ہاتھ میں دودھ کے فیڈر تھے ،اس ظلم پر بعد ازاں بھی کسی حکومتی اہلکار کا دل نہ پسیجہ ۔۔بلکہ ساری حکومتی مشنری مرنے والوں کو دہشتگرد ثابت کرنے پرمضر رہی ، اور ہے ماضی میں پاکستان بھر میں بیشمار اس قسم کے واقعات رونماہو چکے ہیں کہ جہاں پولیس نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بے گناہ انسانوں کو قتل کر ڈالا ،مارے جانے والے شہری ملزم تھے یا نہیں َ؟ قانون کسی پولیس اہلکار کوکسی بھی شہری کو براہ راست گولی مارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ہمیشہ ایسی صورتحال میں گاڑی کے ٹائر برسٹ کئے جاتے ہیں یا ملزم کی ٹانگ میں گولی ماری جاتی ہے جبکہ سانحہ ساہیوال میں 16جوانوں نے حصہ لیا اورانہی پولیس اہلکاروں نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گویا معصوم بچوں کے نہتے والدین کو گاڑی میں بیٹھے ہوئے 10سے 12تک گولیاں مار کر جیسے کوئی کارنامہ سرانجام دیا ہو،اس سانحہ کے بعد ساری حکومتی مشنری کا کردار انتہائی تکلیف دہ اور گھناؤنا رہا ریاستی ادارے اور ذمہ داران مقتولین کو باربار دہشت گرد ثابت کرتے رہے ۔کاش! ان لوگوں میں خدا کا خوف ہوتا ؟ملک میں تسلسل کے ساتھ ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ ہم میں سے ہر فرد اس ملک سے فرار چاہتا ہے ،جس ملک میں انسان کی جان ومال اور اہل و عیال محفوظ نہ ہوں ،وہاں کس کافر کا رہنے کو دل چاہئے گا ۔بگڑی ہوئی ریاستی مشینری ،سیاسی وابستگیوں کی حامل پولیس و بیوروکریسی اور بے لگام عوام کی موجودگی میں ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہونا انتہائی دشوار امر ہے ،بیشک! ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرنا آسان لیکن عملاً ایسا کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔
قران ِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو ،جو کرتے نہیں ‘‘۔۔ہمیں ایسے دعوے ہی نہیں کرنا چاہئے کہ جن کو ہم نبھا ہی نہ سکیں ۔جے آئی ٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں خلیل خاندان کو بے گناہ قرار دیا ہے ،اس خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کے ذمہ دار سی ٹی دی افسران کو ٹھہرایا گیا ہے اور تمام ذمہ داران افسران کے خلاف کا رروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تاہم خلیل کے ساتھ کار ڈرائیو کرنے والے ذیشان نامی شخص کو بہر صورت دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے بارے میں مزید تفتیش کاعندیہ دیا گیا ہے ،جے آئی ٹی کی رپورٹ کے روشنی میں بھی دیکھا جائے تو یہ ساری واردات حکومتی مکروہ چہرے کو بے نقاب کر رہی ہے کہ اگر ذیشان دہشت گرد تھا تو کیا اس کے بارے میں ایسے کوئی شواہد موجود تھے ؟، اس کے خلاف کسی تھانے میں کوئی ایف آئی آ ر درج تھی؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بھی مان ہی لیا جائے کہ ذیشان دہشت گرد ہی تھا تو کیا سی ٹی ڈی کے جوانوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اس کے سینے میں سیدھی گولیاں داغتے اور اس کے ساتھ ساتھ خلیل ،اس کی اہلیہ اور اس کی معصوم 13سالہ بیٹی پر بھی گولیاں برساتے۔ اور تین چھوٹے بچوں کو بھی زخمی کرتے ،حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ اس سانحے میں چار انسانی جانوں کا ضیاع سراسر گناہ کبیرا ہے ، وقوعہ کی روشنی میں ریاستی دہشت گردی بلکہ خونی ڈکیتی کی واردات ہے جس میں گاڑی میں موجود قیمتی سامان بھی سی ڈی ٹی کے جوان لوٹ کر لے گئے۔ دیکھا جائے تو ذیشان دہشت گرد نہ تھا بلکہ چار انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے دہشت گرد تھے ،رپورٹ کی روشنی میں ذیشان کا قتل بھی جرم قرار پاتا ہے کیونکہ وہ بھی کسی طور مجرم نہ تھا۔حکومتی ذمہ داران کا ظلم کروا کر ظلم کا جواز ڈھونڈھنا باعثِ شرم فعل ہے ،جے ٹی آئی رپورٹ کے بعد سانحہ ساہیوال وزیر اعظم پاکستان عمران خان کیلئے یقینی طور پر ایک ٹیسٹ کیس ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ دیگر تمام امور کو پس پشت ڈال کر 4انسانوں کے ماورا قانون قتل کا ازخود جائزہ لیں ،اور اس واقعہ میں ملوث چھوٹے بڑے افسر اور اہلکارکو کیفر کردار تک پہنچانے کی تدبیر کریں ،عمران خان ایک لمحے کوہاتھوں میں دودھ کا فیڈر پکڑے ان معصوم بچوں کی دلی کیفیت کوذہن میں رکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ ظالموں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے ۔اگر اب بھی عمران خان سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر ملزموں کواپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا سکے تو پھر وہ یہ بات بھی کان کھول کر سن لیں کہ پاکستان کے عوام کو ایسا’’ نیا پاکستان‘‘ نہیں چاہئے کہ جس میںلوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہو ۔