پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ اسلامیان ہند نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم علیحدہ وطن حاصل کر کے تعلیمات اسلامی کی روشنی میں زندگیاں گزاریں گے۔ اللہ نے پاکستا ن کی نعمت 14 اگست 1947ء کو مسلمانان بر صغیر کو عطا کی لیکن ہم نے مار دھاڑ کا کلچر پروان چڑھایا۔ جمہوریت کے نام پر صاحبان اقتدار نے زیادہ سے زیادہ پاکستا نی وسائل لوٹنے پر توجہ دی۔ نتیجہ غریب اور امیر میں بڑھتی ہوئی خلیج کی صورت میں نظر آیا۔ جاگیردار اور سرمایہ دار نے اپنی دولت کے بل بوتے پر استحصابی قوت کا روپ دھارا چند خاندان تو ہمیشہ اقتدار پر قابض نظر آئے اور بعض صاحبان دستار و جبہ نے بھی استحصالی قوتوں کو سہارا دیا اور اپنی قیمت وصول کی۔ جنرل ایوب کے دور میں چند خاندان انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے جو مال وزر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ مگر آہستہ آہستہ یہ دائرہ بڑھتا چلا گیا۔ سیاسی ہمدردیاں بدل کر لوٹوں کی فصل بہاراں نے پاکستان کے وسائل پر قبضہ جمانا شروع کیا۔ رشوت، بد دیانتی، مال وزر کی ہوس اور مال حرام کی لذت نے مذہبی قدریں معاشرے سے معدوم کر دیں۔ انسانی ہمدردی انفاق فی سبیل اللہ، اخوت و
بھائی چارے کی فضا ختم ہوتی چلی گئی۔ اور پاکستانی معاشرہ اخلاقی لحاظ سے زوال پذیر ہونا شروع ہوا۔ سچ ہے ۔
زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
ہو رہا ہے ایشیا کاخرقہ دیرینہ چاک
نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
معاشرے جب اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتے ہیں تو باہمی ہم آہنگی، ہمدردی، یک جہتی اور پیار و محبت کی فضا ختم ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں لاہور کے امراض قلب ہسپتال پرو کلاء کا حملہ اور قومی اثاثے کی توڑ پھوڑ کس امر کی غماز ہے۔ قانون کا محافظ طبقہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر دیوانہ وار مشینوں ، مریضوں مسیحائوں اور مکینوں پر حملہ زن تھا۔ پولیس اس یلغار کے سامنے بے بس دکھائی دیتی تھی۔ وکلاء نے جس چیز کو چاہا توڑا اور جس کو چاہا آگ لگائی۔ اس کے محرکات کیا تھے اس سانحہ کی وجوہات کیا تھیں ۔ وہ تو تحقیقی کمیٹی کی رپورٹ میں ڈاکٹروں کے ساتھ ان بن اورچپقلش کا شا خسانہ کیا تھا ؟ وہ تحقیقی رپورٹ کی صورت میں منظر عام پر آئے گا لیکن ورلڈ میڈیا میں جس انداز سے ہسپتال پروکلاء کی جھلک دکھائی گئی ہے۔ وہ ہمارے اخلاقی انحطاظ کی واضح بد صورت تصویر ہے۔ہم نے مغربی جمہوریت تو اپنائی لیکن اس کی برائیاں سمیٹنے کے علاوہ ہمارے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ پاکستان وسائل کی لوٹ مار، اقربا
پروری ، کرپشن، منی لانڈرنگ سے بلند تر ہو کر ہم نے قانون کی حاکمیت کو رواج نہیں دیا۔ آج بھی پاکستان معاشرہ ـ"جس کی لاٹھی اُس کی بھینس"کا منظر پیش کرتا ہے۔ اور یہ جملہ تو زبان زد عام ہے کہ "کھاتا ہے تو لگا تا بھی ہے" اس لگانے کے نتیجے میں مفاداتی گروہ و جودپذیر ہوئے۔ جن پر نواز شات کی بارشیں رہیں۔ شاید قیامت کے دن بھی اُن کے لبوں سے" لگانے والے" کی تعریف بیان ہو۔
ملکی وسائل کو جس بے رحمی سے ہمارے نام نہاد قائدین نے لوٹا ہے اُس کی وجہ سے معاشرے میں محرومی کا احساس بڑھا ہے۔ روزگار کے مواقع معدوم ہوئے۔ پڑھا لکھا نوجوان طبقہ بے روز گار ہونے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوا۔ اور یہی مایوسی و نامرادی پھیلتی چلی گئی۔ پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری نے ملک کے غریب طبقے کو بے چار گی اور مایوسی کی طرف دھکیلا بہت کم لوگ ہمت کر کے دیار غیر کی طر ف محوپر واز ہوئے اور محنت مزدوری سے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور ملک کو محدود پیمانے پر زر مبادلہ بھیجنے میں کامیاب ہوئے۔ ورنہ کئی نوجوان تو تر کی ، ایران، یونان کے کنٹینروں میں موت کی آغوش میں چلے گئے۔
بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھاگیا سر مایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دارانتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
پاکستان کے 72 سالہ دور آزادی میں سرمایہ داراور جا گیر دار ہی مزے کرتے رہے ۔ لوٹ مار کے ذریعے سر محل لنڈن پلیٹس اور دبئی کے پلازے وجود پذیر ہوئے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا گیا۔ روزگار کے مواقع ختم ہو کر رہ گئے صرف خو بر د چہروں کی دیہاڑی لگی رہی جو منی لانڈرنگ کے ذریعے جہازوں پر محویر وازرہیں۔ اور غریب کل بھی معاشرے پر بوجھ تھا اور آج بھی بوجھ ہے۔ نہ حکمران طبقہ اُس کے بچوں کو کتے کے کاٹنے پر ویکسین دینے کو تیار ہے۔ اور نہ ہی ایڈز کے موذی مرض میں اہل لاڑکانہ دوا دینے پر تیار ہے۔ اس کا فرض جیتے جی "بھٹو زندہ ہے" کا نعرہ لگانا ہے ۔ لعنت ایسی جمہوریت پر۔ہمیں قائد اعظم کا مرہون احسان رہنا چاہیے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر اُس نے ہمیں علیحدہ وطن لے کر دیا۔ آج محبوبہ مفتی سے پوچھئے مودی نے ہند میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا ہے اور نئے قوانین کے ذریعے غیر ہندو کو نشانہ ستم بنایا جا رہا ہے۔ اور اہل کشمیر کتنے مہینوں سے کر فیو کی صعو بت برداشت کر رہے۔ دشمن ہر وقت ایٹمی پاکستان کے درپے ہے۔ اور ہمیں آزادی کی اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات