صاحبو ! سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کے شروع میں انسانوں کیلئے جوبے شمار خطرات تھے، ان میں سے ایک وہ دیو پیکر عفریت تھے، جو اب ناپید ہیں ۔ جو بچے اب تک پیدا ہوچکے ہیں یا پیدا ہونے والے ہیں ، جلد ہی ایک انقلاب آفرین نظریہ وضع کریں گے ۔ ڈرون کے نظریہ ارتقاء میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یہ ثابت کرنا کچھ زیادہ مشکلات نہ ہوگا کہ ہماری دنیا کے شروع میں پائے جانے والے جو قومی ہیکل عفریت نہایت ہوشیاری کے ساتھ ارتقائی ساحل طے کرگئے ہیں ۔ درحقیقت وہ ناپید نہیں ہوئے بلکہ موجودہ دور میں ہم انہیں بزرگوں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں ۔ اب دنیا میں نئے آنے والے انسانوں کو جس خطرے کا پیدائش کے وقت سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ’’بزرگ‘‘ یا ’’بزرگی ‘‘ ہے ۔’’بزرگی ‘‘ایک آسیب ہے جو آپ کے سرپر اس وقت تک مسلط رہے گا ۔ جب تک آپ خود بزرگ نہیں بن جاتے یا جب تک آپ جہانِ فانی کوچ نہیں کرجاتے ۔ بزرگ سینس ہمیشہ کامن سینس پر غالب آ تی رہے گی ۔ ایک راستہ جو آپ کو ذرا آسان نظر آئے ۔ بزرگ اپنی بزرگی کے زور سے اس میں خوفناک پیچ وغم نکال کر آ پ کو دکھادیں گے ۔ گلاب آپ کو خوبصورت نظر آئے گا۔ بزرگ آنکھ ان کی بد صورتی دیکھ لے گی ۔ سورج آپ کو روشن نظر آئے گا ۔بزرگ آپ کو یقین دلا کر چھوڑیں گے کہ وہ اتنا روشن نہیں جتنا نظر آتا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کی بد قسمتی آپ کو ایسے بزرگوں کے حوالے کردے جن کی بزرگی آپ کیلئے ایک دلدل بن کر رہ جائے ۔ یا درکھیے کہ بزرگی کی دلدل سے کوئی انسان کوئی فانی انسان آج تک زندہ بچ نکلنے میں کامیاب نہیں ہوا۔بزرگوں کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ انہیں زندگی کا بڑا تجربہ ہوتا ہے۔ تجربے کو کم از کم پاکستان میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ ہر ایک ڈگری لے کر نکلنے والا نوجوان تجربے کی کمی کی سزا بے روزگاری کی شکل میں بھگتا ہے ، چنانچہ بزرگوں کو محض اپنے تجربے کی بناء پر سیاہ وسفید کی ملکیت دے دی گئی ہے ۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ تجربہ تو ان بزرگوں کے پاس بھی ہوتا ہے جو اپنی زندگی ایک ہی گائوں کی گلیوں میں گھوم گھوم کر گزار دیتے ہیں ۔ایسے ہی ایک بزرگ سے ہمارا سابقہ اپنے بچپن میں پڑا ، ہمیں کہانیوں کی ایک کتاب سے چمٹادیکھ کر ان بزرگ نے حقّے کا کش لگا کر کہا کہ بیٹا ! کتابیں زیادہ مت پڑھا کرو ۔ ان سے دماغ پربوجھ بڑھتا ہے اور پھر انہوں نے کسی نوجوان کی مثال دی جو زیادہ کتابیں پڑھنے کی بنا پر اپنا ذہنی تواز کھو بیٹا ۔ ہم نہایت کم گو اور سعادت مند بچے تھے۔ لہٰذا جواب میں بابا جی سے یہ ہرگز نہ کہا کہ بابا جی حقّہ پینا چھوڑ دیں کیونکہ حقّہ اور سگریٹ پینے والے تین بزرگوں میں اکثر خبطی صفت بھی ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی بزرگوں کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ۔ ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں ۔
بعض بزرگ سادہ مزاج ہوتے ہیں ۔ بعض پیچیدہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں ۔ بعض مشکل بزرگ ہیں تو بعض آسان بزرگ ، بعض بزرگ دنیا دار ہیں تو بعض محض عبادت گزار، بعض دور اندیش اور بعض بزرگ اوّل خویش قسم کے ہوتے ہیں ۔ ہم آئندہ کسی کالم میں مختلف اقسام کے بزرگوں کا تذکرہ پیش کریں گے ۔ فی الحال ہمیں ایسے چند بزرگوں کی تلاش ہے جو صاحب بصیرت ہوں ، تجربہ کار ہوں اور صاحب منقار بھی ہوں ۔ وہ ہماری حکومت کو معاشی بحران سے نکالنے کا طریقے بتا سکیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کا کوئی گُر بتاسکیں ۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے کوئی کار گر مشورہ ہی دے دیں ۔ آخر اُن کا تجربہ کس دن کام آئے گا ۔
ایں بزرگی بہ زور بازو نیست
Jan 25, 2020