لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ نے آٹے کے بحران اور گندم کی درآمد کیخلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے گندم کی دستیابی، امپورٹ، ایکسپورٹ اور سمگلنگ کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بتایا جائے گندم سمگل ہوئی؟ افغان مہاجروں کو دی گئی یا دوسروں کو فراہم کی گئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مامون رشید شیخ نے سماعت کی۔ عدالتی استفسار پرسیکرٹری خوراک نے عدالت کو بتایا ایک سوکلو گندم 1375کے حساب سے فلور ملز کو فراہم کی جارہی ہے۔ بیس کلو آٹے کیلئے 805روپے کا ریٹ مقرر ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے بتایا کہ فلورملز اور مارکیٹ میں گندم کی وافر مقدار موجود ہے۔ 23لاکھ ٹن گندم سرکار کے پاس ابھی بھی موجود ہے۔ چکیوں والے اوپن مارکیٹ سے گندم خریدتے ہیں۔انہیں اوپن مارکیٹ سے گندم مہنگی ملی تو انہوں نے ریٹ بڑھا دیا۔ عدالت نے کہا کہ ساٹھ فیصد آٹا میں ملاوٹ کی شکایات کے علاوہ آٹے کے تھیلے کے وزن میں کمی کی شکایات بھی ہیں۔ جوآٹا فراہم کیا جا رہا ہے اس کی غذائیت کیا ہے کس نے مانیٹرکرنا ہے کہ قوم کو کیا کھلایا جا رہا ہے۔ وزن اور غذائیت کے معاملات کو کس نے دیکھنا ہے۔ اگرگندم دستیاب ہے تو یہ تاثرکیوں ہے کہ گندم دستیاب نہیں اور آٹا کیوں مہنگا ہوا۔ چکی والے حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر کیوں ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دئیے جو آٹا دیاجارہا ہے اس سے توسوجی، میدہ اور چوکر نکل جاتا ہے۔ باقی بچنے والی ہوا شہریوں کو فروخت کردی جاتی ہے۔ درخواست گزار اظہر صدیق نے کہا کہ چار لاکھ میٹرک ٹن گندم ایکسپورٹ اور دولاکھ میٹرک ٹن گندم فیڈکے طورپر لائیو سٹاک کو بیچی گئی۔ ان معاملات سے مصنوعی بحران پیدا ہوا۔ عدالت نے سماعت 29 جنوری تک ملتوی کردی۔