پاکستان کے صنعتی اور تجارتی حلقوں میں اضطراب

Jan 25, 2022

سید مدبر شاہ

منی بجٹ کے فورا بعد پاکستان کے تمام صنعتی اور تجارتی شعبوں میں کاروباری حجم کم ہو گیا۔ مارکیٹس میں ایک خوف زدہ کر دینے والی حالت ہے۔ بیشتر لوگوں کو سیلز ٹیکس کی سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ ایف بی آر نے سیلز ٹیکس وصولی کا سارا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے۔ انوائسیں ایف بی آر کی ویب سائٹ پر پہلے کی طرح اپ لوڈ نہیں ہو رہیں جس سے صنعت کار اور تاجر پریشان ہیں۔ دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں دوبارہ کمی بیشی شروع ہو گئی ہے جس سے امپورٹرز اور ایکسپورٹرز یکساں پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں سب سے بڑا مسلہ صنعت کیلئے یہ ہے کہ خام مال پر 17فیصد سیلز ٹیکس یکساں ہو گیا ہے جس سے پیداواری لاگت ہر شعبہ میں بڑھ گئی ہے۔ ٹیکسٹائل ٗلیدر ٗسرجیکل ٗسرامکس ٗفوڈ ٗسمیت ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ ہے لیکن اب ہر چیز کساد بازاری کا شکار ہونے لگی ہے اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ گروتھ ٹیکسٹائل کے تمام شعبوں ہو زری گارمنٹس اپرل وغیرہ میں ہے جسکی وجہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہے لیکن اب یہ طلسم بھی ٹوٹ رہا ہے اور نئے سال کے آغاز سے ہی ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹ میں بڑی کمی آنے لگی ہے جو ملک کی مجموعی معیشت کیلئے مسائل کو جنم دے سکتی ہے ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ 25دسمبر کرسمس کے بعد توقع تھی کہ امریکہ اور یورپ سے بڑے آرڈرز آئیں گے لیکن ایسا نہیں۔ ہوا کیونکہ یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں اس دفعہ کرسمس کے موقع ٹیکسٹائل مصنوعات کی خریداری کم رہی اور توقع سے کم شیلف خالی ہوئے جس کی وجہ سے پرچیز آرڈرز کم ہو گئے اس وقت امریکہ میں تو پاکستانی ٹیکسٹائل کا مال جا رہا ہے لیکن یورپ کی جانب خاموشی ہے بلکہ یورپ کے خریداروں نے جو آرڈرز دئے ہیں وہ بھی لفٹ نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے پورا ٹیکسٹائل سیکٹر خاص طور پر چھوٹی اور ایوریج ملیں اس وقت ادائیگیوں کے سنگین مسائل کو فیس کر رہی ہیں ایک طرف ہمارے وزیر اعظم خوش ہیں کہ ٹیکس 6ہزار ارب جمع ہو گیا ہے حالانکہ یہ جو دو ہزار ارب۔ سیلز ٹیکس کے ہیں یہ حکومت نے ریفنڈ کرنے ہیں مطلب واپس کرنے ہیں ۔
لیکن اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے اب معیشت سست ہونا شروع ہو گئی ہے آئی ایم ایف کا ایجنڈا یہ ہی ہوتا ہے کہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کو سست کر کے ٹیکس لیا جائے اور اپنے پیسے سود سمیت جلد واپس لے لئے جائیں اور اسی پوزیشن پر ملک آ رہا ہے  اب جن صنعت کاروں اور تاجروں نے موجودہ صورتحال دیکھ کر بڑی سرمایہ کاری کی ہے ان کا کیا بنئے گا کیا وہ صرف ٹیکس ہی دیں گے یا کچھ کاروبار بھی کریں گے کیونکہ اس وقت پاکستان میں ہر چیز پر 17فیصد سیلز ٹیکس ہے منافع ہو یا نہ ہو ٹیکس لازمی دیا جائے گا یہ ہے وہ حالت جس نے صنعت کاروں اور تاجروں کو اظطراب کا شکار کر دیا ہے پاکستان میں پہلے ہی کہا جاتا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کے علاؤہ کوئی کاروبار نہ کیا جائے صنعت لگا کر ہزاروں لوگوں کو روزگار دینے کی ہمیشہ سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اب بھی ایسا ہو رہا ہے جو لوگ رئیل اسٹیٹ میں پلاٹ لے کر بیٹھے ہیں وہ مزے کر رہے ہیں کیونکہ ان کا سرمایہ بڑھ رہا ہے لیکن جو صنعت لگا کر یا تجارتی کمپنی بنا کر بیٹھے ہیں وہ رو رہے ہیں۔

مزیدخبریں