احتساب کا نعرہ لگا کر حکومت میں آنے والی پاکستان تحریکِ انصاف اس معاملے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی جن سیاسی جماعتوں یا ان کے رہنماؤں کو کرپٹ کہتی اور ان سے قومی خزانہ واپس لینے کے دعوے کیا کرتی تھی لگ بھگ ساڑھے تین سال گذرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ کامیابی تو دور کی بات ہے حکومت کو ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گذشتہ روز اسی حوالے سے سپریم کورٹ کی طرف سے خورشید شاہ کیس میں آنے والا فیصلہ بھی حکومت کی بڑی ناکامی ہے۔ سپریم کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی ضمانت کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نیب کی جانب سے محض بے نامی داروں کا الزام لگایا، نیب نے خورشید شاہ کے اثاثوں کی سیل ڈیڈ مالیت مسترد کرنے کا ٹھوس قانونی جواز پیش نہیں کیا۔ فیصلے کے مطابق نیب خورشید شاہ اور فیملی ممبرز کے اثاثوں سے متعلق ٹھوس مواد پیش نہیں کر سکا۔ اس فیصلے کے بعد کون پی ٹی آئی کے دعوؤں پر یقین رکھے گا۔ اگر مختلف سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لوگوں نے خزانے کو نقصان پہنچایا بھی ہے تو اسے ثابت کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن حکومت نے ساری توجہ صرف اور صرف سیاسی مخالفین کی کردار کشی پر رکھی، حقائق پر فیصلے کرنے کے بجائے سنسنی پھیلائے رکھی، کوئی ڈھنگ کا کام نہ کیا۔ شہزاد اکبر ناکام ترین دور گذار کر مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کے استعفیٰ پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ خس کم جہاں پاک۔ جتنا وقت انہیں فارغ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے لگایا ہے اگر یہ وقت کسی بہتر اور قابل شخص کو دیا ہوتا تو شاید ملک و قوم کا بھلا ہو جاتا۔ اب شہزاد اکبر کو محفوظ راستہ دے دیا گیا ہے۔ وہ آسانی سے جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔ جتنا عرصہ وہ عہدے پر رہے ہیں کوئی اچھا کام نہیں کر سکے یا جو اس عہدے کا تقاضا تھا اس کے مطابق بھی کام کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ایک طرف حکومت کو احتساب کے معاملے پر ناکامی کا سامنا ہے تو دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی خواہش ہے کہ "شہباز شریف کا کیس براہ راست نشر ہو تاکہ دیکھیں تو سہی کہ شہادتیں کیا ہیں۔ نواز شریف کے مطابق ان کے بچوں پر پاکستانی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ یہی موقف شہباز شریف کا بھی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو 1947 کے قریب قریب ہی ملک پی ٹی آئی کو ملا، یہ ایسے ہی تھا جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی سے دوبارہ قبضہ چھڑایا گیا۔ کرونا کے باوجود جی ڈی پی 5.37 فیصد رہی"۔ فواد صاحب شہادتیں لوگوں کو دکھائیں یا نہ دکھائیں لوگوں کو اس سے غرض نہیں عام آدمی کو سب سے پہلے اپنے کھانے پینے سے غرض ہے۔ حکومت دو وقت کی روٹی دینے میں کامیاب نہ ہو تو لوگوں کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتا کہ کون کیا کر رہا ہے۔ اگر شہادتوں والا کام کرنا ہے تو پہلے سال میں کرتے تاکہ لوگوں کی دلچسپی ہوتی جتنی ضمانتیں ہو چکی ہیں لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ عام آدمی کو نتیجے سے غرض ہے اور حکومت نتائج دینے اور توقعات کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ احتساب پاکستان تحریکِ انصاف کا ایک وعدہ تھا عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہونے والے ناخوشگوار واقعات سے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے سے ناصرف ملک میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں بلکہ پاکستان کے دشمنوں کو اپنے مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔ دن دیہاڑے ہونے والے واقعات انتظامیہ کہ کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ گذشتہ چند روز کے دوران لاہور کی سڑکوں پر ہونے والے دہشت گردی ہے واقعات سے خوف و ہراس کی فضا قائم ہو رہی ہے۔ پاکستان میں امن قائم کرنے کے لیے ہزاروں جانوں کی قربانی دی گئی ہے افواجِ پاکستان اور رینجرز کے جوانوں، پولیس افسران اور اہلکاروں، نہتے شہریوں نے برسوں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ برسوں کی اس محنت کو ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ سڑکوں پر پھٹنے والے بم اور نہتے شہریوں پر چلنے والی گولیاں حکمرانوں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ اداروں کو حرکت میں آنا ہو گا۔ ملک کو جرائم پیشہ افراد اور امن و امان تباہ کرنے والے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بالخصوص پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو حرکت میں آنا ہو گا۔ امن و امان قائم رکھنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں اور انہیں انجام تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا بہتر اور بھرپور استعمال ضروری ہے۔ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے مسائل پر پنجاب اسمبلی میں بہت بات ہوتی رہی ہے۔ اتھارٹی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں اور صوبے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے سخت فیصلوں میں دیر نہ کی جائے۔ اخبار جرائم کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے دشمنوں کو اپنی کارروائیوں کے لیے متحرک کر سکتی ہے۔ ہمارا ازلی دشمن ہر وقت تاک میں رہتا ہے ہمیں امن و امان کے حوالے سے کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہی سانحات کا سبب بنتے ہیں۔ قانون توڑنے والوں کو عبرتناک سزا دی جائے اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
امن و امان کی صورتحال، شہزاد اکبر کا استعفیٰ اور شہباز شریف کا کیس!!!!
Jan 25, 2022