پولیٹیکل سائنس کا بنیادی اصول ہے:
No theory is ever intelligible save in the context of its times.
(ہر تھیوری یا فارمولا معروضی حالات کا مرہونِ منت ہوتا ہے) باالفاظ دیگر جو نظام ایک ملک کیلئے موزوں ہے ٗ ضروری نہیں کہ دوسری قوم کیلئے بھی اتنا ہی موثر ہو۔ایک طویل عرصہ تک آدمی صیدِزبونِ شہر یاری رہا۔ انسان کی انسان کو غلام بنانے کی حِرص اور ہوس نے کبھی دم نہ توڑا! رفتہ رفتہ جیسے اجتماعی شعور بیدار ہونے لگا تو آدمی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جب شاہ و گدا دونوں انسان ہیں تو پھر اْنکی زندگیوں میں اس قدر تفاوت کیوں ہے؟ کئی انقلاب آئے اور بالآخر جمہوری سوچ ملوکیت پر غالب آ گئی۔
موجودہ جمہوریت مغرب کی دین ہے۔ اسکی بھی کئی جہتیں ہیں برطانیہ میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ امریکہ میں صدارتی نظام نافذ ہے وہ بھی جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ فرانس نے کئی تجربوں کے بعد بالآخر صدارتی نظام اختیار کیا۔ جرمنی میں جو طرزِ حکومت ہے اسے ان دونوں کا ملغوبہ کہہ سکتے ہیں! روس اور چین میں کمیونزم آہستہ آہستہ پیچھے جا رہا ہے۔ ایک طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ وہاں آمریت نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ان سب کو بالفرض ایک جملے میں بیان کیا جائے تو امیر خسرو سے تھوڑی سی معذرت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے۔؎ہر کس برسم و راہے ، دینِ او قبلہ گاہے اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ! پاکستان اور ہندوستان 1947ء میں بیک وقت آزاد ہوئے۔ انگریز چلا تو گیا لیکن بوجوہ اپنی روایات (لیگیسی) پیچھے چھوڑ گیا۔ اپنی کامیابی سے چل رہا تھاٗ اسی کو اپنانے کا دونوں ملکوں نے عندیہ دیا۔ اگر فرق تھا تو اتنا کہ ہندوئوں کو خوش قسمتی سے نہرو جیسا لیڈر ملا۔ ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم سے زندگی نے وفا نہ کی۔ انکی بے وقت موت نے اقتدار کے بھوکوں کو کھل کھیلنے کا موقعہ فراہم کر دیا۔ قائد اعظم کے بعد غلام محمد اور اسکندر مرزا یکے بعد دیگرے 1935ء انڈیا ایکٹ کے تحت گورنر جنرل بنے۔ دونوں آئین ساز اسمبلی کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ آئین بنے۔ مقصد اپنے اقتدار کو طوالت دینا اور دوام بخشنا تھا۔ غلام محمد کو تو عوارض نے گھیر لیا ۔ سکندر مرزا اپنے پائوں پر آپ ہی کلہاڑی مار بیٹھا۔ 1958ء کا مارشل لاء اس کی جلاوطنی پر منتج ہوا۔ سازشی شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں جا گرتا ہے۔ آہوں، ہچکیوں، لاتوں اور مکوں کے درمیان وہ لندن رخصت ہوا۔ ایک مغربی تجزیہ نگار نے کیا خوب لکھا:
"Much to his strain, he found himself aboard a plane - London bound."
ایوب خان کو چوہدری محمد علی کا بنایا ہوا 1956ء کا آئین ٹوٹنے کے بعد فکر لاحق ہوئی۔ وہی جوشکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ میں جنرل کو ہوئی تھی:
To be thus is nothing than to be safely a thus.
(شاہ بننے کے بعد شاہی کی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے) اسکے اردگرد حواریوں اور کاسہ لیسوں نے حصار کھڑا کر رکھا تھا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اقتدار کو دوام بخشنے کاایک ہی نادر نسخہ ہے۔ صدارتی نظام! یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام، وردی اُتر بھی جائے تو عہدہ قائم رہے گا۔ چنانچہ اس کیلئے صدارتی نظام کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ لاہور کے بی این آر سنٹر میں ایک بہت بڑے سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ وزیر قانون غلام نبی میمن نے صدارت کرنی تھی۔ ملک کے نام نہاد دانشوروں کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے دو پروفیسروں ڈاکٹر منیر چغتائی (جو بعد میں وائس چانسلر بھی رہے) اور ڈاکٹر بشیرکو حکم دیا گیا کہ وہ جاندار مقالات سے لیس ہو کر آئیں۔ میں ان دنوں سٹوڈنٹ یونین کا صدر تھا۔ ڈاکٹر بشیر صاحب نے میری موجودگی میں نہ صرف تقریر لکھی بلکہ ریہرسل میں داد بھی وصول کرتے رہے۔ انکی ہاں میں ہاں ملانا میری مجبوری تھی۔ طالب علم کتنا ہی لائق یا نالائق کیوں نہ ہو،پاس فیل کرنے کی کنجی ہمیشہ ایسے ہی ’’جہاندیدہ‘‘ اساتذہ کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ انہیں اپنی نوکری کی فکر تھی۔ بولے۔
’’اس تقریرکی بازگشت جب ایوان صدر میں سنائی دے گیٗ تو شعبے کی صدارت میری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح آن گرے گی تو شعبے کی صدارت میری جھولی میں آگرے گی۔ میری آنکھوں کے سامنے بھی وہ کالا گائون لہرایا جسے پہن کر میں نے ایم۔ اے کی ڈگری لینی تھی۔ چنانچہ ’’کیل کانٹے‘‘ سے لیس ہو کر جب ہم ہال میں پہنچے تو وہ سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ حواریوں کے علاوہ مخالفین بھی کافی تعداد میں آئے تھے،کالے کوٹوں والے۔ وکلا صاحبان! جب کارروائی شروع ہوئی تو گھسمان کا رن پڑا۔ نظام کے حق اور مخالفت میں دلیلوں کے پہاڑ کھڑے کر دئیے گئے۔ جس مقرر کی تقریر پر سب سے زیادہ شور ہوا، وہ کالے کوٹ والوں کے گھر کا بھیدی تھا۔ (جاری)