پچھلے دس ماہ سے شہباز شریف کی حکومت اس امر کیلئے کوشاں ہے کہ عمران خان نے ملک کو جس سیاسی دلدل میں دھکیل دیا تھا، اسے وہاں سے نکالا جائے ۔ معاشی بگاڑ میں کرونا نے بھی ساری دنیا کی طرح ہمیں کچل کر رکھ دیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان کی حکومت اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے معاشی حالات کو سنبھالنے میں ناکام رہی ۔ کہاں عمران خان یہ کہتے تھے کہ میں نہ کبھی ملک کیلئے بھیک مانگنے نکلوں گا ، نہ کبھی قرض لوں گا ، کیونکہ ان قرضوں کے ساتھ کڑی شرائط بھی عائد کی جاتی ہیں ،جن سے عوام کا کچومر نکل جاتا ہے ۔
لیکن عمران خان یوٹرن کے بادشاہ ہیں، انہوں نے ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل میں دے ڈالا ، اور پھر پتہ نہیں کہ ان کے ذہن میں کیا خیال آیا کہ انہوں نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے ساتھ بدعہدی کا چلن اختیار کرلیا۔ جس سے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان تعلقات ِ کار انتہائی خراب ہوگئے ۔ اس بھید کی تہہ تک بھی کوئی نہیں پہنچ سکا کہ عمران خان نے اسمبلیاں کیوں توڑیں؟ نگران حکومت کی تشکیل کیلئے سفارشات کیوں کیں؟ وہ چاہتے تو ڈیڑھ برس اور بھی چلاسکتے تھے۔ اتحادیوں کو خوش رکھنا ان کے فرائض ِ منصبی میں شامل تھا۔
مگرلگتا ہے کہ عمران خان کو سیاسی و حکومتی استحکام سے کوئی غرض ہی نہ تھی۔وہ ملک کو عدم استحکام اور انتشارکے تلاطم میں کوشش کرکے دھکیلنا چاہتے تھے۔ اب تو کوئی مﺅرخ ہی اس امر کا تجزیہ کرسکے گا کہ عمران خان حکومت سے انجانے میں کوئی غلطیاں سرزد ہوئیں یا انہوں نے دیدہ دانستہ ملک کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کی تھی ۔
عمران خان اس سیاسی دھچکے کو برداشت نہ کرسکے اورانہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے فوری بعد سیاسی مخالفین کو اپنے نشانے پر رکھا اور فوجی قیادت کو بھی رگیدنا شروع کردیا۔پھر امریکہ کو بھی اپنی حکومت گرانے کی اس سازش میں ملوث کرکے انہوں نے پاک امریکہ تعلقات میں دوری پیدا کردی اور یوں پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہوکر رہ گیا۔ عمران خان کو سیاسی مشیر میسر نہ تھے، اور ان کے پاس معاشی و اقتصادی ماہرین کا بھی شدید قحط تھا۔ یوں پاکستان سیاسی بحران کا بھی شکار ہوا ، اور معاشی ڈیفالٹ کی صورتحال بھی پیدا ہوگئی ۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کے لئے یہ صورتحال کسی سنگین چیلنج سے کم نہ تھی۔ادھر ان کی حکومت بنی،ادھر ملک ایک عذاب ناک سیلاب کی زد میں آگیا۔ تین کروڑ انسان گھربار ،فصلوں اور مویشیوں سے محروم ہوگئے ۔ ملک کا ایک تہائی حصہ یکایک ہولناک تباہی اور بربادی کی تصویر بن کررہ گیا۔شہباز حکومت کے لئے اقتدار سنبھالتے ہی یہ ایک نیا چیلنج تھا۔
عمران خان نے سنگدلی کی انتہا کردی۔ انہوں نے سیاسی جلسے جلوس اور لانگ مارچ شروع کردیئے ۔وہ اکیلے بیس بیس نشستوں سے الیکشن لڑرہے تھے۔انہیں اپنے علاوہ کوئی پارٹی امیدوار الیکشن لڑنے کے قابل دکھائی نہ دیتا تھا۔ عمران خان نے ضمنی الیکشن کو کھلواڑ بنالیااور اب وہ مزید 57خالی نشستوں پر اکیلے ضمنی الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔
بعید نہیں کہ وہ جنرل الیکشن میں ایک ہزار قومی اور تمام صوبائی سیٹوں پر اکیلے ہی کھڑے ہو جائیں۔ انہیں اس امر کاکوئی خیال نہیں کہ الیکشن ایک مقدس ایکسرسائز ہے اور ووٹ ڈالنا عوام کی ایک امانت ہے ، جسے وہ خاطرمیں لانے کوتیار نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے پاس قارون کا ایک خزانہ ہے جو ان کے الیکشن کے بے مقصد کھلواڑ پر اندھادھند خرچ کردیا جائے اور اس آئے روز کی فضول بے مقصد انتخابی مشق سے ملک و قوم کو کچھ بھی حاصل نہ ہو۔
عام آدمی روٹی کے دو ٹکڑوں کیلئے ترس رہا ہے۔اب انہوں نے دو صوبائی اسمبلیوں کا کباڑا کردیا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کی ابتری دیکھی نہیں جاتی ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کا زوال دل و دماغ کو لرزا کر رکھ دیتا ہے ۔ ملک کا خزانہ خالی ہے ۔
عمران خان نے آئی ایم ایف سے ایک ایسا معاہدہ کیا جس کی شرائط پر عمل کرنے سے ایک معاشی قیامت برپا ہوسکتی ہے ۔ اوپر سے عمران کی سوشل میڈیا ٹیم معاشی ڈیفالٹ کا ڈھول بجارہی ہے ۔ غیریقینی کی اس صورتحال نے لوگوں کے دل و دماغ کو ماﺅف کرکے رکھ دیا ہے ۔اس صورتحال سے نکلنے کیلئے کہ عمران خان راہ راست پر آئیں، اور سیاسی انتشار کے خاتمے کیلئے اپنامثبت کردار ادا کریں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے تو اپوزیشن لیڈر کے طور پر عمران خان حکومت کو پیشکش کی تھی کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بامقصدمذاکرات کرکے طویل مدتی معاشی چارٹر پر دستخط کریں، تاکہ ملک کی ابترمعاشی صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچایاجاسکے۔
اب اس پیشکش کو چار سال سے زائد عرصہ گذرچکاہے ، مگر عمران خان نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ اب پانی سروں سے گذر چکا ہے ۔ عمران خان سمیت ہر کسی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ملک کی معیشت درست سمت چلے گی تو پھر ہی سیاست چلے گی۔
وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے معاشی چارٹر کی طرف کئی مرتبہ توجہ دلائی ہے ،لیکن عمران خان کو اپنی سیاست کاری سے کوئی فرصت نہیں ہے۔ جس سے عوام کی پریشانیوں اور مصیبتوں میں کئی گنا اضافہ ہورہا ہے اور وہ مستقبل کی بے یقینی کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ آج قوم کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ خاص طور پر عمران خان کی بے مقصد سیاست کی کوئی منطق نظر نہیں آتی۔
چند روز پہلے ایک سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک عقل کی بات کی ہے کہ قوم کے تمام طبقات کو اس وقت ایک سوشل کنٹریکٹ یا نئے معاہدہ عمرانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ میرے نزدیک اس نئے معاہدہ عمرانی کا بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ کیا ہم ایٹمی پاکستان کوقائم و دائم دیکھنا چاہتے ہیں اور کیا ہمیں عوام کی خوشحالی عزیز ازجاں ہے ....انہی دو نکات کی بنیاد پر نئے معاہدہ عمرانی پر سوچ بچار کے بعد ہماری قومی قیادت کو ایک نیا لائحہ عمل تجویز کرنا چاہئے ،جسے آپ سوشل کنٹریکٹ کہہ لیں یا معاہدہ عمرانی کا نام دے لیں، یا میثاق جمہوریت و میثاق معیشت کہہ لیں ،اس کے بغیر اب آگے ایک دو قدم چلنا بھی محال دکھائی دیتا ہے ۔
میں بڑی حد تک پرامید ہوں کہ وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی متحدہ حکومت سیاسی تجربے کی دولت سے مالا مال ہے ۔یہ لوگ پچھلے پچاس برسوں سے قوم کی قیادت میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ہر اونچ نیچ دیکھی ہے ۔ لہٰذا امیدرکھنی چاہئے کہ ملک کو درپیش موجودہ بحران سے نکالنے میں کامیاب رہیں گے ،عوام کو خوشحالی کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے اور مسلمہ سیاسی اقدار کا بول بالا ہوگا ۔
٭....٭....٭