شرحِ سود میں اضافہ اور  مہنگائی گزیدہ عوام 


گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد نے آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود میں 100 بیسز پوائنٹس سے ایک فیصد اضافہ کا اعلان کر دیا جس کے بعد شرح سود 17 فیصد ہو گئی۔ سوموار کے روز کراچی میں سٹیٹ بنک کے ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس میں گورنر سٹیٹ بنک نے 25 سال کی بلند ترین شرحِ سود کا اعلان کرتے ہوئے مانیٹرنگ پالیسی کے اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ مہنگائی کا دباو برقرار ہے اور مسلسل وسیع البنیاد ہے جس میں پچھلے دس ماہ سے مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ ترسیلِ زر میں کمی اور قرضے کی جاری واپسی کے نتیجے میں سرکاری ذخائر مسلسل کم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی حالات کی وجہ سے پاکستان کے لیے بھی بے یقینی کی صورتحال ہے جس کا اثر ترسیلات اور ایکسپورٹ پر پڑ رہا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرحِ سود میں اضافہ ناگزیر تھا، سود کی مد میں 2 ارب ڈالر ادا کیے مزید ایک ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کریں گے۔ 
ملک میں مہنگائی نے جس طرح عام آدمی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس کے پیشِ نظر اب اس میں مزید کسی بھی قسم کے مالی بوجھ کو برداشت کرنے کی ہمت رہی ہے نہ سکت۔ غریب تو غریب درمیانے درجے کی اور متوسط طبقے کی ہمت بھی جواب دے گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں اسٹیٹ بنک کی طرف سے شرحِ سود میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ اس کے نتیجے میں یقینی طور پر مہنگائی مزید بڑھے گی۔ عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ اس کے لیے باعزت اور باوقار طریقے سے روٹی روزی کا حصول مشکل تر ہو جائے گا۔ مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں اور ان حالات میں شرح سود 17 فیصد کر کے پچھلے 25 سال میں سب سے زیادہ اضافہ کرنے کا’ اعزاز‘ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس ملک اور اس کے غریب عوام کو آخر کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ یہ سال انتخابات کا سال تصور کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں مہنگائی گزیدہ عوام حکومتی نمائندوں کو کس طرح قبول کریں گے۔ موجودہ حالات اتحادی حکومت کے لیے عام انتخابات میں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن