پیر 23 جنوری کی صبح شروع ہونیوالے بجلی کے طویل ترین بریک ڈاﺅن کے باعث کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد سمیت ملک بھر میں بجلی کی فراہمی بند ہو گئی جس کے نتیجہ میں تمام کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ تفصیلات کے مطابق جنوبی و شمالی مین لائنوں میں بیک وقت فالٹ آیا اور گدو اور ڈی جی خان سے آنیوالی سپلائی لائن بھی ٹرپ کر گئی۔ پیر کی صبح ساڑھے سات بجے نیشنل گرڈ سسٹم کی فریکوینسی کم ہوئی جس سے بجلی کے نظام میں وسیع پیمانے پر بریک ڈاﺅن ہوا۔ سسٹم کو بچانے کیلئے این پی سی کا فیوز بند کردیا گیا جبکہ کراچی‘ جنوبی پنجاب‘ سندھ، خیبر پی کے کے مختلف علاقوں کی بجلی بھی بند کردی گئی۔ پنجاب کے تمام ریجنز لیسکو‘ گیپکو‘ آئیسکو‘ میپکو میں بجلی کی فراہمی معطل ہوئی۔ نیشنل پاور کنٹرول اتھارٹی کے مطابق مین لائنوں میں فالٹ کی وجہ سے پورا سسٹم بیٹھ گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ صبح بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ تک تھا جبکہ بارہ سے زائد پاور پلانٹس فنی خرابیوں کے باعث بند ہیں۔ ذرائع کے مطابق علی الصبح گدو پاور کی فریکوینسی کم ہونے سے شمال کی جانب بجلی کا لوڈ غیرمتوازن ہوا جس کے نتیجہ میں جنوبی حصے میں تھرمل پاور پلانٹس بند ہو گئے۔
پیر کی رات ساڑھے 9 بجے کے قریب رفتہ رفتہ بجلی کی بحالی کا سلسلہ شروع ہوا تاہم منگل کی دوپہر تک ملک میں مکمل طور پر بجلی بحال نہیں ہو سکی تھی جس کے باعث بجلی کے بریک ڈاﺅں کے دوسرے روز بھی ملک کے بیشتر علاقوں میں کاروبار زندگی جزوی اور کلی طور پر مفلوج رہا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں باربار ٹرپنگ جاری ہے‘ پانی کا اخراج بڑھانے اور بجلی کی پیداوار بڑھنے کے باوجود فریکوینسی بہتر نہیں ہو رہی۔ ذرائع کے مطابق این ٹی ڈی سی کی تکنیکی ٹیموں کو بریک ڈاﺅن کی اصل وجوہات تاحال معلوم نہیں ہو سکیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے ملک میں بجلی کے تعطل کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر سے فوری طور پر رپورٹ طلب کرلی ہے۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بجلی کا اتنا بڑا بحران پیدا کرنے کی وجوہات کا کھوج لگایا جائے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ انہوں نے فی الفور بجلی کی بحالی کا بھی حکم دیا اور کہا کہ عوام کی مشکلات کسی صورت قبول نہیں۔
بجلی کے اس بریک ڈاﺅن کی جو بھی وجوہات ہیں‘ وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں اس کا کھوج لگانا تو بہرحال متعلقین کی ذمہ داری ہے تاہم یہ اجتماعی طور پر ہمارے لئے لمحہ¿ فکریہ بھی ہے کہ اس ملک خداداد کی تشکیل کے 75 سال کے بعد بھی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہو کر بھی ہم اس قابل نہیں ہو سکے کہ پورے ملک کا بجلی کا نظام مفلوج کرنے کا باعث بننے والے فالٹ کی فوری طور پر نشاندہی ہوسکے جبکہ متعلقہ ادارے ابھی تک نشاندہی میں ناکام ہیںاور اب تک صرف گدو پاور کی فریکوینسی کم ہونا پورے ملک میں بجلی کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ بتائی جارہی ہے۔ ملک کے عوام تو پہلے ہی بجلی کی سال بھر جاری رہنے والی لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے ہوئے ہیں اور موسم سرما میں بھی جب بجلی کی کھپت انتہائی کم ہوتی ہے لوگ، روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کررہے ہیں اور اسکے باوجود بجلی کے بھاری بل وصول کرکے وہ اپنی راندہ¿ درگاہ زندگی کا ماتم کرتے ہیں اور یہ سوچ کر مزید پریشان ہوتے ہیں کہ موسم سرما میں بجلی کی اتنی کمیابی ہے تو موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کس انتہاءکو پہنچے گی۔ یہ فی الحقیقت ہمارے لئے اجتماعی طور پر لمحہ¿ فکریہ ہے۔ بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے ذمہ دار ادارے اتنے ناکارہ اور نااہل ہیں کہ انہیں بجلی کے نظام میں پیدا ہونیوالے کسی فالٹ کی وجوہات کا علم ہی نہیں ہو پاتا اور پھر یہ فالٹ فوری طور پر دور کرنے کا بھی تردد نہیں کیا جاتا۔ تھرمل بجلی فراہم کرنیوالی نجی کمپنیاں تو شتر بے مہار بھی نظر آتی ہیں اور بجلی کی پیداوار بند کرنے کی بلیک میلنگ کے زور پر وہ حکومت سے واجب الادا اپنی رقوم بھی وصول کرتی رہتی ہیں مگر انہوں نے نیشنل گرڈ کیلئے بجلی کی ترسیل کے نظام پر کبھی توجہ ہی نہیں دی اور نہ وہ بجلی کی ترسیل میں پیدا ہونیوالے کسی فالٹ کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہائیڈل بجلی پیدا کرنیوالے تربیلا اور منگلا ڈیم کو بھی پاور ڈویژن نے بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے جن کے پونڈز میں اس وقت اتنی سلٹ جمع ہو چکی ہے کہ ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے جس کا لازمی اثر بجلی کی پیداوار کی روانی پر پڑتا ہے چنانچہ بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے تو اس کا واحد حل بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھانے کی صورت میں نکالا جاتا ہے۔
متعلقہ محکموں کی ایسی ہی بے توجہی ٹرانسمیشن لائنز کے معاملہ میں بھی نظر آتی ہے جنہیں استعداد کار کے مطابق چلائے رکھنے یا درست کرنے کی طرف اسی وقت توجہ دی جاتی ہے جب کوئی بڑا فالٹ پیدا ہوتا ہے جبکہ بوسیدہ ٹرانسمیشن لائنز بھی بجلی کی روانی میں تعطل کا باعث بنتی ہیں۔ محکموں کے افسران و اہلکار اپنی شاہ خرچیوں پر تو کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے‘ مفت بجلی کے حصول سے کبھی نہیں چوکتے اور صارفین بجلی کے ساتھ بھاﺅ تاﺅ میں بھی کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے مگر بجلی کی فراہمی کا تسلسل برقرار رکھنا وہ اپنی ذمہ داری ہی نہیں گرانتے چنانچہ بجلی کے سسٹم میں ٹرپنگ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس سے شہریوں کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس سے متعلقہ محکموں کو کوئی سروکار ہی نہیں۔
گزشتہ روز مسلسل پندرہ گھنٹے اور پھر وقفے وقفے سے بجلی کی فراہمی بند ہونے کے باعث شہریوں کو ناروا اذیت ہی نہیں اٹھانی پڑی‘ تاجروں‘ صنعت کاروں‘ کاشت کاروں اور دوسرے کاروباری طبقات کو اربوں روپے کے نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایک سروے کے مطابق بجلی کی بندش کا دورانیہ طویل ہونے کے باعث گزشتہ روز مساجد اور گھروں میں پانی بھی ختم ہو گیا۔ موبائل فونز اور یوپی ایس کی بیٹریاں جواب دے گئیں جبکہ وزارت توانائی کی جانب سے بجلی کی بحالی کیلئے 27 گھنٹے کی ڈیڈ لائن کا سن کر لوگوں کے عملاً اوسان خطا ہو گئے اور مختلف افواہیں بھی جنم لینے لگیں۔ بجلی کی بندش کے باعث ٹیکسٹائل سیکٹر میں 20 ارب روپے سے زائد کے آرڈرز پورے نہ ہو سکے اور ملک بھر کی جنرل انڈسٹری 80 فیصد بند رہی۔ اسی طرح کمرشل اور زرعی سرگرمیاں بند ہوگئیں اور مواصلات کا نظام بری طرح متاثر ہوا جبکہ فیول کی کھپت بڑھ گئی۔ گزشتہ صبح سے ہی موبائل نیٹ ورک تنصیبات بیک اپ پاور پر چلائی جانے لگیں۔ گھروں اور دفاتر میں یوپی ایس اور جنریٹر کے ذریعے کاروبار حیات چلانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ ایپٹما کے بقول ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی کے بریک ڈاﺅن کے باعث 70 ملین ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ وفاقی انجمن تاجران ایف پی سی سی آئی نے کاروباری طبقات کو مجموعی چار سو ارب روپے کا نقصان ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
بجلی کا نظام بروقت درست نہ ہونے کے باعث عوام میں اس لئے بھی تشویش پیدا ہوئی کہ ہمارا پڑوسی اور ازلی دشمن بھارت تو ہمہ وقت ہماری اندرونی کمزوریوں کے کھوج میں رہتا ہے۔ اگر اسے ہمارے بجلی کی ترسیل کے نظام تک رسائی ہو جائے تو وہ ہماری ادارہ جاتی نااہلیوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ملک میں کسی بھی وقت بجلی کا بڑا بحران پیدا کر سکتا ہے اور ہماری پیداواری سرگرمیوں کو عملاً مفلوج کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں ہم اپنے قومی اداروں میں کسی کوتاہی‘ غیرذمہ داری اور تساہل کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ اس سے بیرونی دنیا میں ملک کا تشخص اور وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ بے شک وزیراعظم شہبازشریف نے اس صورتحال کا فوری اور سخت نوٹس لے کر معاملہ کی انکوائری اور ذمہ داروں کیخلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے تاہم یہ معاملہ محض رسمی انکوائری اور روایتی مٹی ڈالنے والا نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گزشتہ روز کے بریک ڈاﺅن کی اصل وجوہات کا کھوج لگانے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی ترسیل کے نظام کو ترجیحی بنیادوں پر درست بھی کیا جائے اور اس میں موجود ہر قسم کی کوتاہیوں پر قابو پایا جائے تاکہ بیرونی دنیا میں اس وطنِ عزیز کے ٹوٹتے ہوئے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔