ضرب ِ سلیم … ڈاکٹر سلیم اختر
الیکشن کمشنر کی زیرصدارت خصوصی اجلاس میں مشاورت سے آئینی اور قانونی معاملات کا جائزہ لے کر بالآخر نگران سیٹ اپ کیلئے الیکشن کمیشن نے محسن رضا نقوی کا نام منتخب کرکے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ مگر حزب اختلاف کی طرف سے نگران سیٹ اپ کیخلاف اب بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے اعلان کیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جائیں گے جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ محسن رضا نقوی رجیم چینج میں بیرونی سازش کا حصہ رہے ہیں اس لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے انہیں منتخب کرنے پر احتجاج کرینگے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ آئین کے تحت حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو نگران سیٹ اپ کیلئے دو میں سے کوئی ایک نام اتفاق رائے سے تجویز کرنے کا موقع فراہم کیا گیا مگر حسب روایت حزب اختلاف کی طرف سے اتفاق نہ ہوا تو آئین کے تقاضے پر ہی سپیکر اسمبلی کی بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کوئی نام تجویز کرکے باہم اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کا دوسرا موقع بھی حزب اختلاف نے گنوا دیا۔ ظاہر ہے جب حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی طرف سے کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا تو تیسری صورت میں آئین کی دفعہ 224۔اے کے تحت یہ اختیار الیکشن کمیشن کو مل گیا جس نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے نامزدہ افراد میں سے محسن رضا نقوی کو بطور نگران وزیراعلیٰ تقرر کر دیا جو آئین کے مطابق حتمی فیصلہ ہی تصور کیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد اب نگران سیٹ اپ بن چکا ہے‘ اس لئے حزب اختلاف کے پاس اسے تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں ہے کیونکہ حزب اختلاف نے خود ہی پہلے دو آئینی مواقع گنوا کر آئین کی دفعہ 224۔اے کی راہ ہموار کی جس کے تحت الیکشن کمیشن کوئی ایک نام منتخب کرنے کا پابند ہوا۔ عمران خان نے ایک بار پھر اپنی روایتی سیاست قائم رکھتے ہوئے نگران وزیراعلیٰ کو متنازعہ بنا کر ان کیخلاف احتجاج کا اعلان کر دیا ہے جس سے ظاہر ہے ملک میں مزید انتشار ہی فضا ہموار ہوگی جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی اودھم مچانے والی سیاست سے اب بھی رجوع نہیں کیا اور وہ عوامی مقبولیت کے زعم میں ہر اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر بیٹھتی ہے جو آئین کے تقاضوں کے مطابق عمل میں لایا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی اگر دیکھا جائے تو یہ پارٹی کہیں بھی ملکی سیاست میں سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آئی۔ برسراقتدار آنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ وہ عوامی خدمت کا جو عزم لے کر اقتدار میں آئی تھی‘ اسے عملی قالب میں ڈھال کر اپنے آئندہ اقتدار کی راہ ہموار کرتی۔ مگر اس نے چار سالہ دور حکومت میں صرف پی ڈی ایم کو مطعون کئے رکھنے کی غرض سے اسے سخت تنقید کا نشانہ بنائے رکھا اور اسکے قائدین کو چور ڈاکو کا ٹولہ قرار دیتی رہی ۔ بالآخر پی ڈی ایم نے زچ ہو کر متحد ہونے کا فیصلہ کیا اور مہنگائی کو جواز بنا کر عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے میں کامیاب ہوئی تو عمران خان نے رجیم چینج کا بیانیہ گھڑ کر اسے بیرونی سازش قرار دیا جس کا الزام انہوں نے امریکہ کے سر تھونپ دیا جس پر امریکہ کو بھی تردید کرنا پڑی۔ اسکے بعد ملکی سیاست میں جو اودھم مچا‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ بے شک عوامی مقبولیت کی بنیاد پر پی ٹی آئی ملک میں ہونیوالے مختلف ضمنی انتخابات میں اتحادیوں کو شکست دے چکی اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے علاوہ آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں بھی اس نے میدان مارا ہے۔ اور اب وہ عام انتخابات کیلئے بھی پرامید نظر آتی ہے ۔ لیکن فی الحال تو اسے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے کمر کسنے کی سخت ضرورت ہے۔
چونکہ آئین کے مطابق نگران سیٹ اپ بن چکا ہے اور محسن رضا نقوی بطور نگران وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں تو اب حزب اختلاف کو انہیں تسلیم کرتے ہوئے سسٹم کو چلنے دینا چاہیے اور انتشار اور افراتفری پھیلائے بغیر پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب کی تیاری کرنی چاہیے۔ نگران حکومت کو بھی آئین کی متعین کردہ مدت میں پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا انتخاب کراکر انتظامی امور منتخب وزیراعلیٰ کے سپرد کردینے چاہئیں۔اگر مفاداتی سیاست کے باعث موجودہ نگران سیٹ اپ کو طول دیا گیا تو پی ٹی آئی کے ماضی میں سامنے آنیوالے تحفظات کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ عوام میں وہ درست تصور کئے جائیں گے۔ رجیم چینج سمیت (ن) لیگ کے مبینہ کرپشن کیسز کے خاتمے‘ الیکشن کمیشن کے جانبدار ہونے جیسے الزامات کوبھی تقویت ملے گی جس سے عمران خان کا بیانیہ مزید مضبوط ہوگا اس لئے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعینہ مدت میں پنجاب میں وز ارت اعلیٰ کا انتخاب کراکے عمران خان کے بیانیے اور الزامات کی نفی اور اپنے لئے نیک نامی کمانی چاہیے جن پر پی ٹی آئی چیئرمین نے الزام لگایا ہے کہ وہ رجیم چینج کرنے میں بیرونی سازش میں ملوث تھے جنہیں الیکشن کمیشن نے ہمارے دشمن کو ہم پر مسلط کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی انتخابات میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ اس پر لگے الزامات کی بھی تردید ہوسکے۔ عمران خان کا بیانیہ عوام کو اب بھی اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔اس لئے نگران وزیراعلیٰ اور الیکشن کمیشن کیلئے وزارت پنجاب کا انتخاب ٹیسٹ کیس ہے‘ اس میں شفافیت لا کر ہی وہ خان صاحب کے بیانیہ کو عوام کے دلوں سے نکال سکتے ہیں اور ملک میں سیاسی استحکام لا کر عوام میں اپنی مقبولیت کی راہ ہموار لا سکتے ہیں۔