حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
برصغیر میں آج بھی حکیم سعید شہید کے خاندان کی طبی خدمات پر افتخار واعجاز کے مینار تعمیر کئے جارہے ہیں۔ حکیم سعید نے پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے جس محبت اور جس خدمت کا چراغ روشن کیا وہ خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ انشاء اللہ سماجی‘ عوامی اور طبی حلقوں کے ساتھ محبان وطن انہیں خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے ۔رواں عشرے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں حکیم سعید شہید کے جنم دن کے حوالے سے خصوصی سیمینار میں سیاسی‘ سماجی عوامی‘ طبی اور عوامی حلقوں کے نمائندہ شخصیات نے شہید حکیم سعید اور ان کے صاحب زادی محترمہ سعدیہ راشد کے لیے دعاؤں کے گلاستہ سجائے۔ یقینا ایسے لمحات شخصیات کے لیے خال خال دیکھے جاتے ہیں ۔پروردگار عالم حکیم سعید کے درجات بلند کرے اور انہیں رسول کل عالمؐ کے طفیل جنت کا خوبصورت حصہ عطا کرے آمین… پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان سابق وائس چانسلر ہمدرد یونیورسٹی، ڈاکٹر آصف محمود جاہ وفاقی ٹیکس محتسب اعلی ،حکیم رضوان سابق صدر قومی طب کونسل‘ ڈکٹرظفر اقبال ‘ سینیٹر مشاہد حسین سید چیئرمین ڈیفنس کمیٹی ، انور رضا صدر نیشل پریس کلب اور ڈاکٹر سعدیہ کمال سمیت مقررین سیمینار نے جہاں حکیم سیعد کی خدمات کا اعتراف کیا وہاں یہ بھی کہا گیا کہ قوم شہید حکیم کے محبتوں کے مقروض رہے گی ۔ یہ درست ہے کہ حکیم سعید کی پوری زندگی خدمت‘ سعادت وسیادت اور نظم وضبط سے مرقع رہی انہوں نے وسائل سے بھرپور حیات کے باوجود سادگی اور قناعت کی زریں مثالیں قائم کیں ان کے رفقاء کار اور خود انکے حلقہ ارادت کے لوگ ان کی منتظم زندگی پر نازاں ہیں۔
حکیم سعید نے تمام عمر دو ٹائم صبح وشام کا کھانا تناول فرمایا ، ان کی زندگی میں دوپہر کا کھانا کبھی شامل نہیں رہا۔ مطب میں باقاعدہ بیٹھتے ، نبض شناس تھے۔ دوا دے کر خود بھی دعا کرتے اور مریض کوبھی اللہ سے رجوع کی تقلین کرتے۔ دعا اور توکل الہٰی ٰپر پختہ اعتماد نے انہیں یقین کی منزل کا مسافر بنایا ہوا تھا۔ ان کے حلقہ احباب کے بزرگ حکماء بتاتے ہیں کہ حکیم سعید کا جو نسخہ مریض کے لیے شفاء کا پروانہ لاتا اگر وہ نسخہ (دوا) ہم لکھ دیتے تو وہ کارگرثابت نہ ہوتا ۔یہ وہ خاص منزل ہے جو حکیم صاحب کی طویل ریاضت اور رضائے الہی کا عکس تھا۔ حکیم سعید کی دختر محترمہ سعید راشد نے بتایا کہ بابا گورنر سندھ کی حیثیت سے اندرون ملک سفر اکانومی کلاس کا ٹکٹ لے کرکرتے۔ ایک مرتبہ ائیر ہوئٹس نے انہیں مشروب پش کیا آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایسا شربت اکانومی کلاس کا استحاق نہیں ہے۔
حکیم سروسہانپوری اور حکیم سعید کے خانوادے کی قدر مشترک اصلاحی اورطبی خدمات ہیں میرے والد مرحوم ومغفور کا یہ طرہ امتیاز رہا کہ وہ احباب اور عزیزوں کے دکھ درد میں ضرور شریک ہواکرتے ۔ وہ فرماتے کہ اگر خوشی میں شرکت رہ بھی جائے تو کوئی حرج نہیں البتہ دکھ اور غم کے لمحات میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔ میرے والد بتاتے تھے کہ جب ہم مریضوں کو دوا دیتے تو صبح اور رات نماز کے بعد مریضوں کی صحت یابی کے لیے خصوصی التجا ئیںبھی کرتے، یہی وہ انداز جمیلہ ہے جس سے حکیم سعید اور حکیم سرورسہانپوری جیسی قد آور شخصیات نے علم وحکمت میں کارہائے نامے انجام دئیے۔
مقام شکر ہے کہ حکیم سعید شہید کے بعد محترمہ سعدیہ راشد نے ہمدرد اوراس سے منسلک سماجی‘ عوامی ‘ طبی تعلیمی اوراصلاحی اداروں کی مسلسل سرپرستی کی۔ نونہال اسمبلی‘ ہمدردشوریٰ اور اس جیسی تعمیری سرگرمیوں کی شمعیں آج بھی پوری طرح روشن ہیں۔ حکیم سعید اور ان کے ادارے نے تین برس قبل کروناوائرس کی پہلی، دوسری اور تیسری لہر میں قومی خدمت کا نیا باب رقم کیا انکی خدمات کا اعتراف چین ‘ بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہوتا رہا افسوس حکومت پاکستان خصوصاً وزارت صحت کے حکام کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی نہ اب ان کے پاس ٹائم ہے ۔بو علی سینا سے ابن ہشیم تک طب یونانی نے اس سہل طریق علاج کو جس طرح عوامی مقبولیت دی وہ خدمت کا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔حکومت پاکستان ایلوپیتھک کی طر ح طب یونانی کو آن بورڈ لے کر صحت مند پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے اکابرین کئی مرتبہ وزارت صحت اور مقتدرہ اداروں کو پیش کش کرچکے ہیں قومی مفادات کے تحت حکیم صاحب کی طرح کی طبی پیش کش سے فائدہ اٹھایا جانا ضروری ہے۔ کل طب یونانی چند سو جڑی بوٹیوں تک محدود تھا آج کئی ہزار جڑی بوٹیاں انسانی زندگی کے تحفظ کا بیڑہ اٹھا ئے ہوئے ہیں۔ زندگی فطرت کے قریب ہی محفوظ رہی ہے اور فطرت کلی طور پر سادگی اور قدرتی اشیائ(جڑی بوٹیوں) سے منسلک ہے۔