لاہور کے نجی سکول میں طالبات کا ساتھی طالبہ پر تشدد


عیشہ پیرزادہ
eishapirzada12hotmail.com
کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس کی نوجوان نسل کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جاتا ہے 
متشدد لڑکیوں کی نشہ کرتے ہوئے ویڈیو بنا کر  والدین کو بھیجنامظلوم لڑکی کا قصور بنا
نشہ کی عادی تشدد کرنے والی چار طالبات کا سکول سے نام خارج، ایف آئی درج

پرائیویٹ سکول نفع نقصان کے چکر میں تعلیم کمرشلائز کر رہے ،شائستگی دفن ہو چکی

تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے۔ اسے اچھے ،برے کی تمیزسیکھاتی ہے۔ تعلیم یافتہ اقوام کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہاں کی نوجوان نسل تہذیب یافتہ اور باادب ہوتی ہیں۔ پاکستان کو وجود میں آئے 75  سال بیت گئے۔ ایک 75 سالہ شخص کو دیکھیں تو اس کے چہرے پر پڑی جھڑیاں ،جھکی کمر اور گفتگو میں دانائی بتاتی ہے کہ اس نے وقت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔لیکن ہمارا ملک ان 75 سالوں میں وہاں تک نہ پہنچ پایا جہاں اس سے دو سال کم عمر چین موجود ہے۔تعلیم کا شعبہ وہ فیکٹری ہے جو مستقبل کے ڈاکٹرز، ٹیچرز، انجینئرز پیدا کرتی ہے۔ یہاں انسان آتا تو مٹی ہے لیکن یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر جب نکلتا ہو تو کندن بن جاتا ہے۔ لیکن اب یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف ڈگریوں کا حصول ہے۔ جبکہ اخلاقیات، اصول وضوابط صرف کتابی باتیں بن چکی ہیں۔ علم کے تشخص کو جتنا پرائیوٹ سیکٹرنے نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا۔سرکاری سکول تو پہلے ہی اپنی آہ و زاری بیان کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ والدین اچھی تعلیم کے لیے بچوں کو مہنگے پرائیوٹ سکولوں میں داخلہ کروانے پر مجبور ہو گئے۔ ان ہی انٹرنیشنل پرائیوٹ اداروں نے تعلیم کو کمرشلائز کر دیا۔ ان اداروں کو معیار تعلیم سے زیادہ فیسوں اور آمدنی سے لگائو رہا۔ نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور کے پوش علاقے میں واقع نجی سکول میں طالبات کا ساتھی طالبہ پر تشدد کرتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد اس تشدد کے پیچھے جو وجہ سامنے آئی وہ خطرے کی گھنٹی ہے۔  
بتایا گیا کہ چونکہ طالبہ نے اپنی ساتھی طالبات کی نشہ کرتے ہوئے ویڈیو ان کے والدین کو بھیجی تھی لہذا اس طالبہ کو بدلے کے طور پر مارا پیٹا گیا۔ ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ ایک لڑکی فرش پر منہ کے بل لیٹی ہوئی ہے اور اسکے اوپر دو لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ جبکہ اوپر بیٹھی لڑکیاں اس لڑکی کے بال بھی کھینچ اور نوچ رہی ہیں اور اسے گالیاں بھی نکال رہی ہیں، ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بضد ہیں کہ وہ ان لڑکیوں سے معافی بھی مانگے۔جس کے انکار پر اس لڑکی کو مزید مارا جاتا ہے۔ اس ویڈیو میں ایک لڑکے کی بھی آواز آرہی ہے جو باتوں سے لگ رہا ہے کہ وہ حملہ آور طالبات کا ساتھی ہے۔ اس ساری صورتحال میں وہ بچی مدد کے لیے بھی پکارتی ہے لیکن کوئی اسے بچانے کے لیے نہیں آتا۔یہ واقعہ اتنا افسوسناک اور شرمناک ہے کہ مذمت کے لیے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے بھی پرائیوٹ سکولوں میں طلباء کا نشہ آور اشیاء استعمال کرنے کا انکشاف ہوا تھا۔ جبکہ کراچی کے سکولوں میں نشہ آور اشیاء کا استعمال معمول بنتا جارہا ہے۔ کسی قوم کو اگر تباہ کرنا ہو تو اس کی نوجوان نسل کو سب سے پہلے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ نشہ کا عادی انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سکولوں میں اب بچوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، جس پر ایسے تمام سکول قصور وار ہیں جو بدنامی کے ڈر سے بات دبا جاتے ہیں اور اس عادت میں ملوث بچوں کے خلاف مئوثر کارروائی عمل میں نہیں لاتے۔ یہاں والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ ان کا دوست بن کر ہر بات جاننے کی کوشش کریں۔ ہم واپس آتے ہیں لاہور کے نجی سکول سکینڈل کی جانب۔
 ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد خوش آئند امر ہے کہ اس پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر زنانہ لاہور کی جانب سے ایکشن لیا گیا اور تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی۔ 
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرتے ہوئے اسکول کی رجسٹریشن معطل، جرمانے اور تشدد کرنے والی طالبات کا نام اسکول سے خارج کرنے کی سفارش کی ہے۔ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نے انکوائری رپورٹ میں قراردیا ہے کہ واقعہ اسکول سے باہرسٹوڈنٹ پارٹی کی تصاویر والدین سے شئیر کرنے پر پیش آیا۔ طالبہ  پرتشدد نجی سکول کے کیفے ٹیریا کے باہر پیش  آیا۔ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اسکول میں نظم وضبط کا فقدان پایا گیا، کیفے ٹیریا کے داخلی راستے پر کیمروں کی تنصیب بھی نہیں کی گئی۔ لڑائی جھگڑا کرنے والی طالبات آپس میں دوست تھیں۔
جبکہ متاثرہ بچی کے والد کی مدعیت میں تھانہ ڈیفنس میں درج مقدمے میں مدعی عمران نے مؤقف اپنایا کہ اس کی بیٹی کو کلاس فیلو جنت، اس کی بہن کائنات، عمائمہ اور نور رحمان نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
ایف آئی آر کے مطابق باکسر عمائمہ متاثرہ لڑکی کو کھینچ کر کینٹین کی طرف لے گئی، اسے بالوں سے پکڑا، چھریوں کے وار کیے، زمین پرگرایا اور ٹھوکریں مارتے رہے۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ ملزمان نے متاثرہ لڑکی کی سونے کی چین بھی چھین لی، لڑکی جنت نشے کا شوق رکھتی ہے اور مدعی کی بیٹی کو بھی نشے میں ملوث کرنا چاہتی تھی۔
 جبکہ ان چار طالبات کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہو گئی۔ 
اس معاملے پر پولیس کا کہنا ہے کہ متاثر ہ لڑکی کے میڈیکل میں تشدد کی تصدیق ہوئی ہے، ڈیفنس اے کے نجی سکول کی انتظامیہ سے بھی پوچھ گچھ کی گئی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ نجی سکول میں الیکٹرک سگریٹ تنازع کی وجہ بنی۔ ان چار طالبات کے خلاف مئوثر کارروائی عمل میں لانی چاہیے تاکہ آئندہ کسی تعلیمی ادارے میں ایسا واقعہ پیش نہ آئے، لیکن ساتھ ہی ساتھ تحقیقات میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان طالبات کے علاوہ سکول میں باقی بچے بھی کیا نشے کی عادت میں مبتلا ہیں؟ نشہ آور اشیاء کی ترسیل کہاں سے ہو ررہی ہے؟ اگر آج اس معاملے پر سنجیدگی نہ برتی تو مستقبل میں کئی گنا نقصان ہمارا مقتدر ہوگا۔ کونسے والدین ہیں جو یہ چاہیںگے کہ وہ اپنے بچوں کو ان کی جوانی میں مدہوش دیکھیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...