چودھری اسد اللہ خاں لاہور
علامہ محمد اقبال اپنی خداداد دانش اور قابل ستائش شاعری کی وجہ سے انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں بہت معروف شخصیت بن چکے تھے۔ عوام کے علاوہ انگریز سرکار بھی ان کی قابلیت کی معترف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز گورنر پنجاب نے ایک ملاقات میں علامہ صاحب سے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو ’’سرSir‘‘ کا خطاب دینا چاہتے ہیں۔ باادب علامہ اقبال نے اتنا بڑا خطاب قبول کرنے کے لئے ایک شرط لگا دی۔ گورنر نے حیران ہو کر وہ شرط جاننا چاہی۔ تو شاعر مشرق نے کہا کہ وہ شرط ہے کہ ’’آپ مجھے خطاب دینے سے پہلے خطاب کا اعزاز میرے استاد محترم مولوی میر حسن کو دیں‘‘ گورنر نے حیران ہو کر کہا کہ ان کی تو کوئی معرکتہ الآراء تصنف و تالیف ہم نے نہیں دیکھی سنی۔ اس پر علامہ صاحبہ نے فوراً جواب دیا کہ ان کی مجسم تصنف ’’میں خود‘‘ آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔ گورنر اس حیرت جواب پر بہت خوش ہوا اور علامہ صاحب کے استاد مولوی میر حسن کو’’شمس العلمائ‘‘ کے خطاب سے نواز دیا۔ مولو ی میر حسن اس وقت شدید بڑھاپے کی وجہ سے سیالکوٹ شہر میں اپنے گھر پر قیام پذیر تھے وہ سفر کی صعوبت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے ان کا خطاب ’’شمس العلمائ‘‘ گورنر ہائوس لاہور میں ان کے بیٹے نے وصول کیا۔ یہ کہاوت سچ ہے،’’بآداب بانصیب‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کیپشن
احمد نعیم۔ لاہور
محمد اذلان رضا۔پیر محل
محمد احد ملک۔اسلام آباد
عریش بخاری۔اسلام آباد
مصطفی بن سجاد۔ اسلام آباد
جون سجاد۔ اسلام آباد