الیکشن کا دمادم مست قلندر 

Jan 25, 2024

اسد اللہ غالب

وہ لوگ جو اس شش و پنج میں تھے کہ الیکشن ہوگا یا نہیں ،اب وہ سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ الیکشن کے بعد کیا ہوگا۔الیکشن کا ہونا ،الیکشن کے نہ ہونے سے بدرجہا بہتر ہے۔ جمہوری اور مہذب قومیں اپنی قیادت کا چناﺅ خود کرتی ہیں اور یہ سلسلہ ان کے ہاں تواتر سے جاری ہے۔پاکستان میں الیکشن کے ساتھ اچھی یادیں وابستہ نہیں ،خاص طور پر ستر کا الیکشن جس نے ملک دولخت کردیا ،باقی ہر الیکشن میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔پچھلے الیکشن میں آر ٹی ایس بند ہوا تو رات کے اندھیرے میں پی ٹی آئی کو اکثریت مل گئی،مگر اس پارٹی کے چیئرمین عمران خان کو ایک یونین کونسل تک چلانے کا تجربہ نہیں تھا۔ اسے ایک ایٹمی ملک کی سربراہی مل گئی۔اس نے ملک کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا کہ خدا کی پناہ۔آج ملک میں مہنگائی کا عفریت پھنکار رہا ہے۔معیشت کے دیوالیہ ہونے کی خبریں اڑائی جا رہی ہیں ،وطن عزیز کے ایک سے زیادہ ٹکڑے کرنے کے ارادے سامنے آرہے ہیں۔ عام آدمی بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ جائے تو کہاں جائے۔ اسے روشنی کی کرن کہیں سے نظر نہیں آتی۔پی ٹی آئی نے نو مئی کو جو قیامت برپا کی اس کے بعد تو اس کا کڑا احتساب ہونا چاہئے تھامگر پی ٹی آئی کے لیڈروں کو مختلف ٹکڑوں میں نئی پارٹیاں بنانے کی کھلی آزادی مل گئی۔ 9 مئی کے سانحے کے کسی مجرم کو سزا نہیں ملی اس لیے یہ لوگ اور شیر ہو گئے اور اب دما دم مست قلندر کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی قوم کی امید ابھی ختم نہیں ہوئی‘ اس کے جذبے اور امنگیں جوان ہیں۔ملک کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر جیسا سپہ سالار مل گیا ہے ،یہ امر باعث اطمینان ہے۔جنرل صاحب نے ایک سال میں ایک ایک کرکے کئی بحرانوں کو ٹالا ہے۔ملک میں نگران حکومتیں اپنا کام کر رہی ہیں۔پنجاب کے چیف منسٹر محسن نقوی نے تو کارناموں کا ڈھیر لگا دیا ہے۔نئے الیکشن کا وعدہ پورا ہوتا نظر آتا ہے۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو منزل سے دور رکھنے کی بہترین کوشش کی لیکن یہ پارٹی ایک مخصوص اور مذموم ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہے ،اس نے عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔اسے ملک کے وجود اور اس کی سلامتی سے کوئی غرض نہیں ،اس کا ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ ایٹمی اسلحے سے لیس پاک فوج کو کیسے ڈھیر کیا جا سکتا ہے۔یہ لوگ پاکستان میں گورباچوف کا کردار ادا کر رہے ہیں ،جس نے سوویت یونین جیسی سپر پاور کو پیس کر رکھ دیا۔آج دنیا کو ایک اسلامی ایٹمی قوت قابل قبول نہیں اس لئے کھلے عام سازشیں ہو رہی ہیں مگر اللہ کو کچھ اور منظور ہے۔وہ پاکستان کی طاقت کو قائم و دائم رکھے گا۔ ملک میں جنرل الیکشن کا انعقاد ایک امید افزا علامت ہے۔ہمیں ستر کے الیکشن سے ڈرایا جا رہا ہے لیکن آج ملکی قیادت محب وطن ہے اور ملک کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے پر عزم بھی ہے۔ملکی سکیورٹی کی باگ ڈور جنرل عاصم منیر کے ہاتھ میں ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو مساوی مواقع دیے گئے ہیں۔انتخابی مہم زوروں پر ہے،بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے جلسے سارا دن جاری رہتے ہیں۔سیاسی قائدین ووٹ لینے کے لیے نت نئے وعدے کرتے ہیں۔بھٹو کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ پیچھے رہ گیا اب ایک خوشحال پاکستان کی بات کی جا رہی ہے۔میاں نواز شریف کو امید ہے کہ ہے وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بنیں گے ،عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بننا ایک بہت عزت کی بات ہے۔میاں نواز شریف نے ماضی میں ملک کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔اٹھانوے میں امریکی مخالفت کے باوجود ایٹمی دھماکے کیے جن کی وجہ سے بھارت کو سانپ سونگھ گیا ہے اور اب وہ پاکستان کے خلاف کوئی خطر ناک مہم جوئی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔میاں نواز شریف کے دور حکومت میں موٹر ویز بنیں،میٹرو بسیں چلیں ،اورنج ٹرین چلی اور سی پیک کے ذریعے ملک کو انقلاب کے راستے پر ڈال دیا گیا۔پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی پی پی پی بھی انتخابی میدان میں موجود ہے۔پی پی پی ایک پرانی سیاسی قوت ہے جسے بھٹوکی قیادت میسر آئی۔ جس نے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو نئے سرے سے جوڑا ،بھارت کی قید سے ترانوے ہزار قیدی آزاد کرائے اور ملک کے مقبوضہ علاقے شملہ معاہدے کے ذریعے واپس پاکستان کے نقشے میں شامل کیے۔بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور ایک عام آدمی کو احساس تفاخر بخشا۔یہ پارٹی کئی بحرانوں کاشکار ہوئی لیکن اس کی ہڈی پسلی مضبوط نکلی اور وہ عوام کے ووٹوں سے ایوان اقتدار تک پہنچ گئی۔پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری ایک جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔سیاست کی ابجد کوئی ان سے سیکھے۔باقی چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی اپنا آئینی حق استعمال کر رہی ہیں اور انتخابی دنگل میں شریک ہیں۔اب آٹھ فروری کوئی دور کی بات نہیں ،امید کی جا رہی ہے کہ یہ الیکشن آزادانہ ،غیر جانبدارانہ اور ہر لحاظ سے شفاف ہوگا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے عناصر ہر بھیس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں لیکن عوامی سروے بتاتے ہیں کہ جہاں جہاں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے امید وار آمنے سامنے ہیں وہاں ن لیگ کا پلہ بھاری ہے اور جہاں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی آمنے سامنے ہیں وہاں پیپلز پارٹی کو برتری حاصل ہے۔بہر حال انتخابی نتائج کی حتمی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔فیصلہ عوام نے کرنا ہے اور فیصلے کی گھڑی سامنے آ پہنچی ہے۔امید کی جا رہی ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں ملک کو ایک پر عزم قیادت میسر آئے گی اور پاکستان آسانی کے ساتھ معاشی مسائل حل کر پائے گا۔لکھتے لکھتے ایک الیکشن سروے سامنے آیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک تیزی سے زوال کا شکار ہوا ہے اور اس کی کئی منطقی وجوہات ہیں۔پی ٹی آئی کو اپنے مستقبل پر کوئی بھروسہ نہیں ،اس نے کئی حلقوں میں جینوئن امیدواروں کے مقابلے میں چھاتہ بردارلوگوں میں ٹکٹیں بانٹ دیں۔جن کے جیتنے کے امکانات روشن نہیں ہیں۔پی ٹی آئی کا گالی گلوچ کا گراف آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ،جبکہ اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے گر رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ خود عمران خان کا ذہنی رویہ ہے۔قید و بند اور مقدمات کی بھرمار سے وہ ذہنی توازن کھو چکے ہیں اور بلاوجہ عدلیہ سے،الیکشن کمیشن سے اور جیل اہلکاروں سے الجھنا ان کا معمول بن چکا ہے۔اس وقت سوشل میڈیا پر عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل اپنے عروج پر ہے۔عمران خان کو بولتے وقت زبان پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور وہ سرکاری حکام کو دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ میں تم سے نمٹ لوں گا ،تمہیں نہیں چھوڑوں گا اور تمہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا۔عام ووٹر سکتے کی حالت میں ہے کہ وہ ایسے لیڈر کو دوبارہ چانس دے یا نہ دے۔عمران کی زبان اس کے قابو میں نہیں ہے وہ اپنے محسن آرمی چیف کو جانور سے تشبیہہ دیتا ہے۔انہیں میر جعفر اور میر صادق کی طرح غدار کہہ چکا ہے۔کسی کو مولانا ڈیزل پکارتا ہے۔سروے میں کہا گیا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔بھٹو نے بھی اپنے مخالف سیاست دانوں کو کچالو خان، آلوخان اور ڈبل بیرل خان کے ناموں سے پکارا تھا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ الیکشن میں اس کے پولنگ بوتھ خالی تھے اور اسے منطقی انجام تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔کیا عمران خان اور ان کے پیروکار اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔یہ ہے وہ سوال جس کا جواب پولنگ بوتھ پر ہی اسے ملے گا۔

مزیدخبریں