قائد کے دو قومی نظریے کی سچائی ، بابری مسجد اب رام مندر 

Jan 25, 2024

امیر محمد خان

امیر محمد خان 

 1,441,719,852آبادی والے ملک بھارت نے جو ملک میں سیکولر نظام ہونے کا ڈھول پیٹتا ہے اور اپنی رعایا میں ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی کیلئے یکساں قانون کا ڈھنڈورہ کرتا ہے مگر ہر آنے والے دن وہ ثابت کرتا ہے کہ وہ صرف اور صرف ہندو ریاست ہے اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ حقیقت کی گواہی دے رہا ہے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے 1947ء میں ہی بتا دیاتھا کہ ہندو مسلمان ہرگز ساتھ نہیں رہ سکتے اس نظریہ کے تحت ہجرت کی گئی اور ہزاروں افراد نے ہندوئوں اور سکھوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا ، خاندان تباہ ہوئے،جائیدادوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور قائد کی آواز پر بے سروسامان مسلمان پاکستان کی طرف چل پڑے ، سکھوں کو بھی جلد اندازہ ہوگیا کہ ہندوستان RSSکی موجودگی میں ہندو ریاست انکی بھی نہیںہے اسلئے وہاں تامل اور دیگر لوگوں کی طرح تاحال انکی تحاریک موجود ہیں ، علاقے کی سب سے بڑی ریاست نے خود ہی اپنے سیکولرریاست ہونے کے نعرے کو کلہاڑی مار کر اسے ختم کردیا گزشتہ روز اتر پردیش کی ریاست ایودھیاء میں ہندو انتہاء پسند وزیر اعظم نریندرمودی نے سولہویں صدی میں قائم کی جانے والی شہنشاہ بابر کی بابری مسجد کو رام مندر بنا کر کا افتتاح کردیا جو یقینا ہندوئوں، ہندوستان یا مندر سے محبت کم بلکہ آنے والے انتخابات میں ہندوئوں کے ووٹ کی خواہش پر کئے جانے والا قدم ہے ہندوستان جہاں آبادی کا اکثر پس مندہ طبقہ باتھ روم سے محروم اعلی صبح ریل کی پٹریوں اور جنگلو ں میں رفع حاجت کی ضروریات پوری کرتا ہے RSSکی سرپرستی میںچلنے والی حکومت عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کئے ہوئے ہے ایسے میں انکے مذہبی جذبات کو اپنی حمائت میں لینے کیلئے ایک بڑا اقدام ہے ، بابری مسجد کی جگہ اگر رام مندر بنانا ہندو مذہب کیلئے ضروری تھا تو مودی کی حزب اختلاف تو ہندو ہی ہے وہ رام مندر کے افتتاح کے ڈرامے پر مودی کے خلاف کیوںمظاہرے کررہی تھی ، راہول گاندھی اور انکے پیروکار بھی تو ہندو ہیں وہ کیوں اس روز اپنی جماعت کے ہمراہ سڑک پر بیٹھے مظاہرہ کررہے تھے ؟؟راہول گاندھی کے علاوہ دیگر حزب اختلاف نے بھی کیوں بائیکا ٹ کیا ؟ کیا وہ رام مندر یا رام کے خلاف تھے ؟؟ انہوں نے واضح الزام عائد کیا کہ یہ صرف انتخابات کیلئے اسوقت ڈرامہ رچایا گیا ہے بابری مسجد ( حالیہ رام مندر) میں زمین پر الٹا لیٹ کو کھسک کھسک کربھگوان سے ’پراتھنا ‘‘کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’ہم سے غلطی ہوگئی ہم نے اسے رام مندر بنانے میں کئی سال لگا دئے (اسکا اندازہ انہیں بھارتی انتخابات سے قبل ہی ہوا ) بھارتی انتخابات سے قبل اکثر مرتبہ ہندوئوںکی حمائت کیلئے بھارت کو کوئی قدم اٹھانا ہوتا ہے ووٹرز ا ور خاص طور پر ہندو ووٹرز کی توجہ و حمائت کیلئے ، پاکستانی عوام کا خیال ہوتا ہے کہ بھارتی انتخاب کے وقت پاکستان کی سرحدوں پر ’’حرکتیں‘‘ کرتا ہے مگر چونکہ اسے علم ہے کہ پاکستان کی افواج بھی نگاہیں کھلی رکھتی ہے بھارتی حرکت کے جواب میں پاکستان کی بہادر افواج گنتی کم ہے مارتی زیادہ ہے۔ بابری مسجد کو رام مندر بنانے کی خواہش بہت پرانی بھی ہے 1949ء میں ایک مقامی سادھو نے رات کی تاریکی میں مسجد میں کچھ مورتیاں رکھ دیں۔ مقامی مجسٹریٹ نے مسجد والوں سے کہا آپ چند دن یہاں نماز نہ پڑھیں کیونکہ نقضِ امن کو خطرہ ہے۔ اس کے بعد وہاں رام مندر اور بابری مسجد تنازع شروع ہوا۔ ایک گمنام محلے میں کی گئی ایک چھوٹی سی شرارت پہلے ہندو انتہاپسندوں کا اور پھر آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کا خواب بن گئی۔اب کہا جا رہا ہے کہ ایودھیا میں بننے والا عظیم مندر ہندو مذہب کا ویٹیکن ہو گا جس طرح مسیحی مذہب ماننے والوں کا ہے۔ چونکہ ہندو مذہب میں ایک مرکزی روحانی رہنما یا پوپ جیسی کسی ہستی کی گنجاِش نہیں ہے تو وزیرِاعظم مودی نے شاید یہ نیا منصب بھی اپنے نام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہندوستان میں دھرم کے چار بڑوں کو اس بات پر اعتراض ہے، اْن کو شنکر اچاریہ کہتے ہیں۔ انہوں نے مندر کے افتتاح کا بائیکاٹ کیا ، بنیادی اعتراض ان کا یہ ہے کہ ایک تو مندر کی تعمیر ابھی مکمل نہیں ہوئی اور سرکار اسے اپنی مشہوری کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔رام مندر پر غریب بھارتی رعایا کے اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں ، ویسے ہر ملک ہر اپنی زمین پر کوئی بھی عمارت یا عبادت گاہ بنائے یہ اسکا حق ہے مگر کوئی عمارت خاص طور مذہبی جگہ مسجد کو مسمار کرکے وہاں دوسرے مذہب کی عبادت گاہ بنائی جائے یہ صرف ذہنی دشمنی ، عداوت ، سیاست کے علاہ کچھ نہیں اسکا اپنے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کی وزار ت خارجہ نے رام مندر کے افتتاح دنیا کی توجہ دلائی ہے کہ یہ کونسی سکیولر ریاست ہے جو دوسرے مذاہب کی عبادت گاہ پر اپنی عبادت گاہ قائم کرے ؟؟ مجھے یاد ہے پاکستان کی شاعرہ اور ایم کیو ایم کی سابقہ مرحوم رہنماء فہمیدہ ریاض نے اپنی جلاوطنی کے سات سال ہندوستان میں گزار ے ،انہیں بھارتی شاعرہ نے اندرہ گاندھی سے درخواست کرکے ہندوستان میں جلاوطنی گزارنے کی اجازت دلوائی تھی جب انھوں نے ہندوستان میں ہندوتوا کی آتی ہوِئی یلغار دیکھی تو ایک مشہورِزمانہ نظم لکھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تم بھی ہم جیسے نکلے بھائی ، اگر فہمیدہ ریاض آج ہوتیں اور رام کے نام پر گائے جانے والے نئے بھجن سنتیں جس میں مار دینے، کاٹ دینے اور پاکستان میں بابر کا مندر بنانے کے وعدے کیے جاتے ہیں تو اندازہ ہوتاہے کہ ہندو کس سوچ کے مالک ہیں ؟؟ مودی کی خواہش تا حیات رہنے کی ہے اوراسکے لئے ضروری ہے یک بڑا قتلِ عام اور ایک تاریخی عمارت کی تعمیر جو صدیوں تک اسکے نام سے یاد رکھی جائے۔ جیسا کہ تاج محل، اہرامِ مصر، یا بادشاہی مسجد۔ قتلِ عام کا الزام مودی پر تب سے تھا جب گجرات کے وزیرِاعلیٰ کے طور پر انھوں نے دہلی کی طرف اڑان بھری تھی۔ اب رام مندر بنا کر انھوں نے دوسری شرط بھی پوری کر دی ہے۔ اور ساتھ رام کو بھی واپس اپنے گھر لائے ہیں۔بابری مسجد کو رام مندر کا درجہ دینے میں ہندوستانی فسادات میں دو ہزار افراد قتل ہوئے تھے ، نیز رام مندر بنانے میں ہندوستان کی عدلیہ نے اہم رول اد ا کیا مجرموںکو رہاکردیا گیا اور بابری مسجد کے مسمار کو قانونی درجہ دیا۔ بھارتی الیکشن آیا چاہتا ہے لیکن اس سے پہلے ہی مودی جی نے اپنے آپ کو رام کا اوتار اور ایک نئے ہندو راشٹر کا سربراہ بننے کی تاج پوشی کا بندوبست کیا ہے۔ اس لیے ایودھیا میں دس لاکھ دیے جلائے گئے۔ ایودھیا میں مندر کے سنگ بنیاد کے بعد ہونے والی پر اتھنا خالص اور سادہ طور پر ہندو مذہب کو سیاسی مذہب کے طور پر نشان زد کرتی ہے۔ یہ صرف ایک لمحہ نہیں ہے جب ریاست، جس نے اس کے پیچھے اپنی تمام تر طاقت جھونک دی ہے، سیکولر ہونا چھوڑ دیا ہے۔ یہ وہ لمحہ بھی ہے جب ہندو مذہب کا مذہبی ہونا بھی ختم ہو جاتا ہے۔ہندوستان کے اس اقدام سے اب ہندووںکا رخ حسرت موہانی کی150قدیم مسجد سنہری باغ کی طرف ہوگا چونکہ مساجد اور مسلمانوں کی یادگاروں کو ختم کرنا ہے۔پاکستان بھی اسوقت حالت انتخابات میںہے اسلام آباد کی کرسی حاصل کرنے کیلئے دست و گریبان ہیں مگر کسی کو بابری مسجد کو رام مندر بنانے پر کوئی دکھ نہیں ، دکھ معلوم ہوتا اگر وہ اپنے سیاسی جلسوں میں دو لفظ اسکی مذمت میں ہی کہہ دیتے ،مگر وہ نہیں کہہ سکتے چونکہ انہوں نے علاقے کی سب سے بڑی مارکیٹ بھارت کے ساتھ کشمیریوں کی لاشوں پر بیٹھ کر بھارت سے تجارت کرنا ہے ، ہماری وزارت خارجہ عالمی طور پر بھارت سے مقابلے کی اہل نہیں ، بھارت کو خوف ہے تو صرف اورصرف ہماری بہادر افواج کا ہے جو مارتی زیادہ ہے گنتی کم ہے۔

مزیدخبریں