پاک ایران تعلقات کی بحالی کا خوش آئند فیصلہ


 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود احمد سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
29 جنوری 2024ء کو ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبدالبہان پاکستان کے خیر سگالی دروے پر اسلام آباد پہنچیں گے۔ پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے مابین 22 جنوری کو ٹیلی فونک رابطہ ہوا، فریقین نے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ قدم اٹھانے پر اتفاق کیا۔ جمعۃ المبارک 26 جنوری سے دونوں سفیروں کی واپسی ہوگی۔ وزارت خارجہ نے ساری صورت کی تفصیلات پریس کو جاری کرتے ہوئے اظہارمسرت بھی کیا۔ مقام شکر ہے کہ دو اسلامی ممالک کے مابین اختلافات فوراً ختم ہوگئے یعنی دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اختلاف ' تناؤ اور سفارتی تعلقات کی معطلی کا یہ قضییہ سولہ جنوری سے شروع ہوا جب ایرانی بارڈر سے میزائل داغا گیا جو بلوچستان میں گرا جس سے دو بچیاں شہید ہوئیں اور املاک کوبھی نقصان پہنچا۔ پاکستان نے اعلی سطح پراس مداخلت اور انسانی جانوں کے ضیاع کا نوٹس لیا۔ سیاسی اور عوامی حلقوں کی طرف سے فضائی حدود کی خلاف ورزی انسانی جانوں کے ضیاع اور میزائل کا جواب دینے کا دباؤ بڑھ گیا تھا۔چناچہ پاک فضائیہ نے ایرانی بارڈز کے قریب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، نتیجے میں 7 دہشت پسند واصل جہنم ہوئے۔ پاکستان نے وضاحت بھی کر دی تھی کہ مرنے والے ایرانی شہری نہیں تھے۔ پاک ائیر فورس نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے نشانہ بنائے اس ضمن میں 20 جنوری کہ سہ پہر نیشنل سیکورٹی کونسل کا غیر معمولی اجلاس منعقد کیا گیا۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اس ہنگامی اجلاس میں قومی سلامتی اور شہریوں کی حفاظت کا اعادہ کیا گیا۔ سپہ سالار نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان کے ایک ایک شہری کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے اورپاک افواج اپنا فرض ہر حال میں مقدم رکھتی ہے اور انشاء اللہ رکھے گی۔ فضائیہ کے سربراہ نے جمعرات کو پاکستان کے جوابی حملے اور 7 افراد کی ہلاکت کی بابت تفصیلات دیں، پاک فضائیہ کے طیاروں نے خراساں میں کالعدم تنظیموں بی ایل اے اور پی ایل ایف کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ ہلاک ہونے والے ایرانی شہری نہیں تھے۔2021ء سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے تھے اور شائید اِسی لئے پاکستان ایران سے یہ توقع کر رہا تھا کہ وہ اس واقعہ پر اظہارِ تاسف کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اِس قضیے کے حل کی طرف بڑھے گا. امید بر نہ آنے پر پاکستان کو ایران کے خلاف جوابی کارروائی کا فیصلہ کرنا پڑا.۔سیستان کے ڈپٹی گورنر علی رضا مرہماتی کے مطابق، "یہ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح چار بج کر پانچ منٹ پر کیا گیا جس میں ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کے شہر سراوان کے ایک سرحدی گاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ حملے میں تین خواتین، دو مرد اور چار بچے مارے گئے جو کہ ایرانی نہیں تھے". دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق، "جمعرات کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے مخصوص ٹھکانوں پر انتہائی مربوط فوجی حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کا کوڈ نام "مرگ بر سرمچار" تھا۔ انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کے دوران متعدد دہشت گرد مارے گئے". پاکستان کی جانب سے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا مقصد اپنا دفاع کرنا تھا۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے، "پاکستان نے 18 جنوری کو علی الصبح ایران کے اندر کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور اس حملے کا ہدف وہ عناصر تھے جو پاکستان کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث تھے۔ اس کارروائی میں خودکش ڈرون، راکٹ، میزائل اور گولہ بارود استعمال کیے گئے جبکہ 'کولیٹرل ڈیمج' سے بچنے کے لئے انتہائی احتیاط برتی گئی"۔پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمی اور سفارتی تعطل کو دنیا بھرکے میڈیا نے نمایاں اہمیت دی۔ روس' چین ' افغانستان' سعودی عرب اور ترکی کی سفارتی کوششیںجاری رہیں۔ یہ ان میں پس پردہ تعمیری سرگرمیوں کا نتیجہ ہے کہ تعلقات کی فوری بحالی ممکن ہوئی ورگرنہ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ دشمن پاک ایران تناؤ سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ پڑوسی دشمن ملک میں تو خوشی کے شادیانے بجنے کی بازگشت بھی سنی گئی۔ بھارت اسرائیل اور ان کے حواری خوش تھے کہ مسلمان ممالک کی توجہ فلسطین سے ہٹ گئی۔ دشمنوں کا یہ خواب شائد کبھی پورا نہ ہو ،پاکستان اور ایران نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا اس کے اثرات یقیناً دونوں ممالک کے عوام پرپڑیں گے۔
ہم ان سطور کے ذریعے عرصے سے تجوید دے رہے ہیںکہ مسلمان مالک کو اپنے اختلافات ختم کر کے خود کو متحد اور طاقتور بنانا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل کرنا مسلمانوں کا حق ہے۔سب نے دیکھ لیا کہ غزہ میں 28 ہزار شہادتیں ہو چکی اور مسلمان ممالک جنگ بندی کی قرارداد منظور نہ کراسکے۔ امریکہ' فرانس اور ان کے محبان بار بار ویٹو پاور استعمال کرکے  جنگ بندی  کی درخواست رد کرتے رہے۔ اب بھی وقت  ہے مسلمان قیادت ہوش کرے۔ اتحاد' یکجہتی اور اتفاق کے الاؤ روشن کرے تاکہ دوبارہ غزہ جیسی قیامت صغری سے محفوظ رہا جائے۔

ای پیپر دی نیشن