سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے صوبے میں انتظامی عہدوں پر بھرتیوں کے لیے ہونے والے مقابلے کے امتحانات ایک لمبے عرصے سے عدم شفافیت کی بنا پر متنازع قرار دیے جارہے ہیں۔ یہ معاملہ کئی بار عدالتوں میں بھی جاچکا ہے۔ 2003-4ءمیں ہونے والے مقابلے کے امتحانات کی چھان بین کا معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو سونپا گیا تھا جس نے تین سال کی تحقیقات کے بعد یہ بتایا کہ امتحانی عمل مشکوک تھا۔ اسی بنیاد پر کئی کامیاب امیدواروں کے نتائج کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔ اسی طرح، 2016 ءمیں ہونے والے صوبہ سندھ کے مقابلے کے امتحانات کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیرقانونی قرار دیدیا تھا۔ 2018ءمیں جو امتحانات منعقد ہوئے ان سے متعلق ایک درخواست محمد ایوب پنہوار نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جس میں کہا گیا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیے جانے والے امتحانات میں گھپلے اور بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور کمیشن کی انتظامیہ اس معاملے کے لیے پوری طرح ذمہ دار ہے۔
ایوب پنہوار نے اپنی درخواست میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی تھی کہ ان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر 10 نومبر 2020ءسے شروع ہونے والے مقابلے کے امتحانات کو ملتوی کیا جائے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن نے اس درخواست کا جو جواب عدالت میں جمع کرایا اس میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امتحانی عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے عدالت نے درخواست گزار اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے وکلاءاور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی رضامندی سے یہ فیصلہ دیا کہ 2020ءکے مقابلے کے امتحانات عدالت کی نگرانی میں ہوں گے جس کے لیے کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ کے امتحانی مراکز کی نگرانی کے لیے طریقہ کار بھی طے کردیا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح طور پر بتادیا گیا کہ ان مراکز کی نگرانی کس کے ذمے ہوگی۔
اسی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے 10 سے 25 نومبر 2020ءتک مذکورہ چاروں امتحانی مراکز میں سندھ پبلک سروس کمیشن نے مقابلے کے امتحانات کا انعقاد کرایا اور عدالت کی طرف سے مقرر کیے گئے نگرانوں نے اس پورے عمل کی نگرانی بھی کی اور یومیہ بنیادوں پر اپنی رپورٹ بھی تیار کی جس میں صراحت کے ساتھ بتایا گیا کہ امتحانی عمل میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ نگرانی کے اسی عمل کے تحت حل شدہ پرچے سندھ پبلک سروس کمیشن کے حیدرآباد میں واقع مرکزی دفتر پہنچائے گئے۔ یہاں تک امتحانی عمل کا صرف ایک مرحلہ مکمل ہوا تھا اور ابھی مزید دو مراحل، یعنی حل شدہ پرچوں کی جانچ اور زبانی امتحانی، باقی تھے۔ اور یہی وہ مراحل تھے جہاں زیادہ گڑبڑ ہونے کا بھی امکان تھا، شاید اسی لیے کمیشن نے عدالت کے مقرر کردہ نگران کو اس عمل میں شریک نہیں کیا اور نگران کو جب دو برس کا عرصہ گزرنے کے بعد اس عمل کا جائزہ لینے کے لیے دعوت دی گئی تو انھوں نے دیکھا کہ حل شدہ پرچوں کی جانچ مکمل ہونے کے بعد کمیشن کی جانب سے کئی امیدواروں کے پرچے ’درستی‘ کے لیے ممتحنین کو بھجوائے تھے اور اس عمل کو rectification کا نام دیا گیا تھا۔
اس عمل کے ذریعے جو کچھ کیا گیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحانات کا نظام کتنا شفاف ہے۔ rectification کے نام پر ایک امیدوار کو پہلے دیے گئے نمبر کاٹ کر 98 اضافی نمبر دیدیے گئے۔ اسی طرح، ایک اور امیدوار کو 78 اضافی نمبر ملے اور ایسے تو بہت سے ہیں جنھیں 40 نمبر اضافی دیے گئے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذمہ داران نے خود بھی اس بات کا اعتراف کرلیا کہ ’درستی‘ کا نام لے کر پرچوں میں اضافی نمبر دیے گئے ہیں، اور یہ تجویز دی گئی کہ ان پرچوں کی دوبارہ جانچ کرائی جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’درستی‘ کے لیے کمیشن کے جن افسران و اہلکاران نے اپنے ’اختیارات‘ استعمال کیے تھے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ خیر، سندھ ہائی کورٹ نے 24 فروری 2023ءاور 29 اپریل 2023ءکو اپنے دو فیصلوں کے ذریعے کہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن 2020ءکے مقابلے کے امتحانات کا دوبارہ انعقاد کرائے۔
عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے 12سے 26 جون 2023ءتک امتحانات دوبارہ منعقد کرائے گئے۔ ان تحریری امتحانات میں ایک پرچہ اردو کا بھی تھا جو 14 جون 2023ءکو لیا گیا اور اس پرچے کے ایک اہم حصے کا جائزہ لینے سے بہت اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن نے ان امتحانات کے انعقاد میں کتنی سنجیدگی سے کام لیا ہوگا۔ کسی بھی تبصرے کے بغیر ذیل میں پرچے کے اس حصے کو من و عن نقل کیا جارہا ہے:
”مندرجہ ذیل نظم کی مدد سے اقبال کے پیغام کی وضاحت کیجیے۔
مٹ جائے گناہوں کا تصور جہاں سے اقبال
اگ ہو جائے ”یقین“ کہ اللہ دیکھ رہا ہے
دل پاک نہیں تو پاک ہو نہیں سکتا انساں
ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت
سر جھکانے سے نمازیں ادا نہیں ہوتیں
دل جھکانا پڑتا ہے عبادت کیلئے
اقبال نے توڑ دی تسبیح اس لیے
کیا گن کر نام لوں اس خدا کا جو بے حساب دیتا ہے
کوئی عبادت کی چاہ میں رویا
کوئی عبادت کی راہ میں رویا
عجیب ہے یہ نماز عشق کا سلسلہ اقبال
کوئی قضا کر کے رویا کوئی ادا کر کے رویا“
سندھ پبلک سروس کمیشن اور ’کلامِ اقبال‘
Jan 25, 2024