انصاف انصاف جج صاحب انصاف: یہ ہیں وہ الفاظ جو ہر وکیل سارا دن عدالتوں میں اپنے کلائنٹس کے لیے ادا کرتا ہے۔ ہر وکیل کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ا±س کے کلائنٹ کو انصاف مل جائے۔ کتنا عظیم کام ہے، کتنا بڑا کام ہے جو وکلاءکو تفویض ہوا ہے۔ الوکیل خالق کا نام ہے۔ پاکستان میں متحدہ ہندوستان کے وقت سے انگریز کا قانون لاگو ہے۔ اِن قوانین کو اسلامی قوانین کے تحت ڈھالنے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق کوئی بھی قانون اسلام کے متصادم نہیں بن سکتا۔ کتابوں میں لکھے ہوئے قوانین کی حد تک تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ امن و آشتی کا منبع ہے لیکن حقیقت حال قطعی مختلف ہے۔ قوانین کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں لیکن پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ با لکل اسی طرح جس طرح انگریز نے اِس خطے میں حکومت کی۔
لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے گنجان آباد ہے۔ گڈ گورننس نام کی کوئی شے نہ ہونے کا شاخسانہ یہ ہے کہ لاہور میں تجاوزات کی بھر مار ہے ٹریفک کے مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ بیان سے باہر۔۔ لاہور میں جب میٹرو بس اور اورنج ٹرین چلائی گئی تو اِن منصوبوں کی سخت مخالفت کی گئی لیکن وقت ثابت کر رہا ہے کہ لاہور کے شہریوں کے لیے یہ کتنا کامیاب منصوبہ ثابت ہوا ہے۔
لاہور کی ا نتظامی تقسیم میں جو تحصیلیں وجود میں آچکی ہیں ان میں بھی سول کیسیز کی عدالتیں قائم کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں۔ اِس ضمن میں ماڈل ٹاون کچہری میں سول کیسز ایوان عدل سے ٹرانسفر کردیے گئے۔ اِسی طرح رائے ونڈ میں بھی تحصیل کورٹس قائم کیے جانے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ ماڈل ٹاون، ضلع کچہری، کینٹ کورٹس میں پہلے سے مجسٹریٹ کی عدالتیں اپنے اپنے علاقے کی حدود میں قائم تھانوں کے مقدمات کے حوالے سے کام کر رہی ہیں۔اب لاہور ہائی کورٹ نے ماڈل ٹاون کچہری میں سول مقدمات جو اِسکے تھانوں کی حدود میں آتے ہیں وہ ایوان عدل سے وہاں ٹرانسفر کردیئے ہیں اور اِس علاقے کے نئے دائر ہونے والے کیس بھی اب ماڈل ٹاون کچہری میں دائر ہونگے۔ اِسی طرح دوسری تحصیل کورٹس میں بھی بتدریج یہ عمل ہوگا۔
سول کیسیز کی کمپوزیشن مختلف ہوتی ہے اور مجسٹریٹ کے پاس چلنے والے کیسوں کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ سول کیسوں میں سائل نے خود کیس کی شہادت کے دوران لازمی طور پر پیش ہونا ہوتا ہے۔ باقی جو پراسیس چلتا ہے ا±س میں و کیل کا ایکٹیو کردار ہوتا ہے۔ نوٹس کروائے جاتے ہیں جتنے بھی کیس کے فریقین ہیں سب کو ہربار نوٹس کروایا جاتا ہے جب تک تمام فریقین عدالت میں پیش نہ ہوجائیں یا جو پیش نہ ہوئے ہوں ا±ن کی حد تک یکطرفہ نہ کردیا جائے۔اِس طرح ان کیسوں میں وکیل نے خود پیش ہونا ہوتا ہے اِس کے بعد کیس کے جواب کے معاملات چلنا شروع ہوتے ہیں۔ اِس میں بھی مختلف مدارج طے کرنا ہوتے ہیں دونوں طرف کے وکیل اپنے اپنے کیس پر گہری نظر رکھے ہوتے ہیں کیونکہ سول پروسیجر کوڈ 1898ئ جس کے تحت سول کیسوں کی سماعت ہوتی ہے وہ ایک گورکھ دھند ہ ہے اور یوں سول مقدمات کی سماعت، ا±ن کی شہادتوں کا پراسیس اور پھر بحث وکلائ کو اپنی طرف مرکوز کیے رکھتی ہے۔ تحصیل سطع پر فوجداری مقدمات سے متعلق مجسٹریٹ کی عدالت جو کام کرتی ہے اس کی نوعیت یکسر مختلف ہوتی ہے۔ ا±س میں وکیل کی حاضری بہت کم ہوتی ہے۔ جیسے ہی ماڈل ٹاون کی کچہری میں سول مقدمات ٹرانسفر کیے گئے ہیں اب ایک جج صاحب کی کاز لسٹ بتا رہی ہے کہ ا±ن کے پاس ڈھائی سو مقدمات لگے ہیں گویا کہ دونوں اطراف کے وکلاءصاحبان جو پیش ہوں گے وہ پانچ سو ہوں گے جبکہ سائل کی حاضری صرف شہادت کی سطع پر مقدمے میں ہونا ہوتی ہے جو کہ وکیل صاحب کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ا یک عدالت میں اگر ایک دن میں پندہ لوگوں کی گواہیاں ہونی ہیں تو اِس میں صرف ا±ن پندرہ لوگوں نے شہادت کے لیے آناہے۔ اِس طرح وکلاءکا اکٹھ ایک جگہ بہت زیادہ کرلینے سے رش لگے گا۔ سائل کے اگر اور کیس بھی ہیں تو پھر اسے دیگر کورٹس میں بھی جانا ہو گا۔ پس اس طرح سائل اور وکیل کو شٹل بنا دیا گیا ہے۔ سول مقدمات کی سماعت کے لیے سائلین ریفرنس کے ذریعہ سے وکیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ جو بھی کچہری میں وکیل مل گیا ا±سے ہی اپنا وکیل کر لیا۔ سول مقدمات برسوں چلتے ہیں تو اِس طرح وکلاءکو ہر تحصیل میں سارا دن گھمائے جانے کا کیا مقصد ہے۔ وکیل جب لاہور کی پانچ چھ تحصیلوں میں کیس کے لیے جائے گا تو وہ ہر تحصیل میں کیس پر ا±س طرح توجہ کیسے دے سکتا ہے جیسے اگر ایک ہی جگہ پر کیسیز چل رہے ہوں تو وہ بہتر کام کرسکتا ہے۔ کراچی کا کل رقبہ 3,530 مربع کلو میٹر ہے اور اِسکی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جبکہ اسکے سات اضلاع ہیں۔ تمام کورٹس پورے کراچی کی ایک ہی جگہ پر ہیں جبکہ لاہور کی آبادی ڈیرھ کروڑ سے کم ہے اور اِس کا رقبہ404 مربع کلومیٹر ہے۔ یوں لاہور کی سول کورٹس کو شہر کے مختلف کونوں میں پھیلانا انصاف کے قتل کے مترادف ہے کیونکہ اِس طرح سائلین کے مقدمات کی سماعت میں بھرپور ان پٹ دینے کے لیے وکلاءکو پورے شہر میں چرخی کی طرح گھومنا پڑئے گا۔ اسِ سے نقصان سائلین کو ہوگا۔ کیس کی لاگت بڑھ جائے گی اور وکلاءسول کیسوں کو جو ایک جگہ پر نہیں لڑ سکیں گے اور شٹل کاک بنے رہیں گے۔ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ جو جلد انصاف کی فراہمی کا نعرہ لگایا جاتا ہے عدالتوں کی اِس طرح تقسیم سے اِس کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ اِس لیے بہتر تو یہ ہے کہ سول مقدمات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے اور بہتر ہوگا کہ لاہو رکی تمام عدالتوں کو ایک جگہ ہی اکٹھا کردیا جائے تاکہ سائلین جو پہلے ہی اِس نظام انصاف سے شاکی ہیں وہ مزید مشکلات کا شکار نہ ہوں۔
لاہور کی عدالتوں کی تقسیم۔ حقائق؟
Jan 25, 2024