بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
حضرت علی ؓ 13 رجب ہجرت سے23برس قبل بمطابق 599 ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔آپ حضورؐ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔والدہ محترمہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا۔ آپ کا اور حضورؐ کا سلسلہء نسب ایک ہی ہے۔آپ کی ولادت سے پہلے حضور اکرمؐ کا حضرت خدیجتہ الکبرٰی ؓسے عقد ہو چکا تھا اور آپ اْن ہی کے گھر میں قیام پذیر تھے۔عبد المطلب کی وفات کے بعد بنی ہاشم کی مالی حالت کچھ اچھی نہ تھی۔حضور کے چچا اور سرپرست ابو طالب پر بڑے کنبہ کی پرورش کا بہت بوجھ تھاچنانچہ آپ نے حضرت علیؓ کو اپنے چچا سے اجازت لیکر اپنی تربیت میں لے لیا۔حضرت علیؓ نے آنکھ کھولی تو اپنے باپ کے بجائے حضور اکرمؐ کو ہی دیکھااور آپ ؐکی آغوش میں ہی پرورش پائی۔ نزول وحی کے کچھ عرصہ بعد جب حضور اکرمؐ نے کوہِ صفا پر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو دینِ حق کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:یا معشر قریش!اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کی پشت پر ایک لشکرِ جرار آیا ہوا ہے تو کیا تم یقین کرلو گے؟‘‘تو جواب ملا کہ ’’ہم نے آپؐ کو ہمیشہ سچ بولتے پایا ہے‘‘ آپ ؐنے فرمایا’’تو میں تم سے کہتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اْس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے۔تم ایمان نہ لاؤ گے تو سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے ایک ایسے عذاب میں جس سے تمہیں پناہ نہ ملے گی‘‘جب تمام زبانیں گنگ ہو گئیں تو مجمع میں سے ایک نوجوان حضرت علیؓ نے للکار کر کہا یا رسول اللہ!آپ ؐ مجھے ہمیشہ اپنا قوتِ بازو پائیں گے۔اعلانِ حق کے بعد سارا مکہ مخالف ہو گیا اور مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی۔اِس موقع پر حضرت علی ؓ نے حضورؐ کا محافظ ہونے کا بھر پور حق ادا کیا۔شعبِ ابی طالب کی محصوری کے دوران تقریباً تین سال کا عرصہ حضرت علیؓ کیلئے ایک بہترین دور تربیت ثابت ہوا ۔آپؐ کے چچا ابو طالب کی رْعب دار شخصیت کی وجہ سے مشرکینِ مکہ حضورؐ پر دست ستم دراز نہ کر سکے اور اْن کی وفات کے بعد اْن کے جواں سال فرزند نے قائم مقام بن کر حفاظت کا یہ حق ادا کیا۔ہجرت کے موقع پر حضور اکرمؐ نے مکہ والوں کی امانتیں نو عمر حضرت علیؓ کے سپرد کیں اور اپنے بستر پر سو رہنے کی ہدایت فرماکر ہجرت کیلئے روانہ ہو گئے۔مکان کا محاصرہ کرنے والے چادرِ رسالت میں محو خوابب آپؐ ہی کو سمجھتے رہے ۔امانتیں لوٹانے کیلئے حضرت علیؓ دو روز تک مکہ میں رہے۔اور آپؐ کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیکر مدینہ کی طرف ہجرت فرما گئے۔پیدل چلنے کے باعث پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔اور مقامِ قباء پر حضور پاک ؐ سے آکر ملے۔رشتہ اخوّت کے اعلان کے موقع پر حضورؐ نے اپنا سلسلہ حضرت علی ؓسے قائم کیا۔ جو حسب نسب کے لحاظ سے پہلے ہی موجود تھا۔غزوہ بدر میں آپ نے نو آموز مجاہدین کی حیثیت سے اپنی شمشیر کا لوہا منوالیاحالانکہ وہ آپ کی پہلی جنگ تھی۔
جگر گوشہ ء رسول سیّدہ فاطمتہ الزہراؓ سے عقد ہونے کے بعد آپ نے حارثہ بن نعمان ؓسے رہنے کیلئے کرایہ پر مکان حاصل کیااور ازدواجی زندگی کا آغاز کیاجو اسلام کی عملی تفسیر ہے۔جنگِ اْحد میں حضورکی اجازت سے لشکر قریش کے ایک علَم دار کو صف سے نکلتے ہی بیک شمشیر واصل جہنم کر دیا تھا۔دشمن کا ہر فردمجاہدِ اعظمؓ کو نشانہ بنائے ہوئے تھا۔جدھر سے بھی تیر آتا حضرت علی ؓسینہ سپر ہو کر زخم کھاتے جاتے۔غزوہ اْحد میں حضورؐ کی حفاظت کرتے ہوئے آپ نے ستّر کے قریب زخم کھا کر اپنا حق ادا کر دیا۔جنگِ خندق کے موقع پر جب حضرت علی عمرو ابن عبدہ کے مقابلے پر نکلے جو خندق عبور کرکے للکار رہا تھا۔تو حضورؐ نے فرمایا’’کْل اسلام کْل کفر کے مقابلے پر جارہا ہے‘‘۔عمرو پہلوان کا کام تمام کرنے کے بعد ضرار و جبیرہ اور نوفل مقابلے کیلئے آئے۔نوفل بھاگتے وقت خندق میں گر گیا اور حضرت علیؓ نے اْسے تہ تیغ کر دیا۔صلح نامہ حدیبیہء کی تحریر کا کام حضرت علیؓ کو سونپا گیا۔ جب ابتدا ء محمد رسول اللہ ؐسے کی گئی تو مخالفین نے کہا صرف محمد بن عبداللہ لکھا جائے۔حضورؐنے کاٹ دینے کی اجازت دی لیکن حضرت علی نے اْسے کاٹنا بے ادبی تصور کیا۔چنانچہ حضورؐ نے اس کو اپنے دستِ مبارک سے خود کاٹا۔خیبر کا قلعہ بے حد مضبوط تھا جو کسی صورت بھی مْسخر نہ ہو رہا تھا۔ایک دن حضور نے اعلان فرمایا’’کل میں عَلم اْس کو دونگا جو اللہ اور رسول ؐکو عزیز رکھتا ہے اور اللہ اور رسولؐ کو پیارا بھی ہے اور کبھی لڑائی سے فرار نہیں ہوا‘‘حضورؐ نے دعائے فتح و کامرانی کے ساتھ عَلم حضرت علی ؓکے ہاتھ میں دیا اور وہ قلعہ کو مْسخرکرنے میں کامیاب ہوگئے۔فتح مکہ کے موقع پر عَلم حضرت علیؐ کے ہاتھ میں تھا۔فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین میں بھی آپ نے ہاشمی شجاعت کے لازوال جوہر دکھائے۔غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علیؓ کو مدینے میں اپنا قائم مقام مقرر کرکے حضورؐتشریف لے گئے۔بعض لوگوں نے اْن کو طعنہ دیا کہ حضور ؐ خطرے سے محفوظ کرنے کیلئے آپ کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔آپ جوشِ شجاعت میں اسی روز راستے میں حضورؐ سے جاملے۔حضوؐ کو واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا’’علی!تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی‘‘۔چنانچہ یہ سَندمل جانے کے بعد آپ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی سربراہی میں حْجّاج کا قافلہ مکہ معظمہ پہنچاتو نقابت کے فرائض حضرت علی ؓنے انجام دیئے اور فرمایا’’مشرکین سے کئے ہوئے تمام معاہدے آج سے چار ماہ بعد کالعدم ہو جائینگے۔کوئی کافر خانہ کعبہ میں داخل نہ ہو سکے گا۔اور نہ کسی کو برہنہ حج کرنے کی اجازت ہوگی‘‘۔
حضور اکرمؐ کی تیمارداری میں آپ نے دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھااور آپ ؐکے وصال کے بعد دنیا آپ کی آنکھوں میں اندھیر ہو گئی۔مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آپ نے ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔جس میں لوگوں کو انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں پر توجہ دلائی گئی۔آپ چوتھے خلیفہ تھے۔اور اپنی گوناگوں خصوصیات کے باعث ایک امتیاز بھی رکھتے تھے۔زہر آلود تلوار سے آپ کو شہید کیا گیا۔آپ کا دور ِخلافت پونے پانچ سال پر محیط تھا۔آپ کی زندگی مسلمانوں کیلئے ایک مثالی زندگی ہے۔آپ نے گہوار اسلام میں پرورش پائی۔ حضور ؐ کی حیاتِ طیبہ تک آپ کا کردار ایک محافظِ اسلام کا تھااور آپؐ کے وصال کے بعد کا دور حلم و تحمل کی آزمائش کا دور تھاجس میں آپ پورے اْترے اور کسی منزل پر ذرا سی لغزش بھی نہ ہوئی۔آپ نے سادگی اور توکل کی مثال قائم کی تربیتِ رسول ؐنے آپ کے اوصاف کو جلا بخشی ،آپ کے خطبات،فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر تھے۔