میرے لئے یہ امر باعث اعزاز ہے کہ مجھے پنجاب گورننس فورم2012ءکی اس تقریب میں شامل ہوکر پنجاب میں حکومت کی کارکردگی کو مزید بہتربنانے کیلئے فاضل مقررین کے گرانقدر خیالات اور سفارشات سے آگاہی حاصل ہوئی ہے۔آج کی اس تقریب کے انعقاد کا مقصد حکومتی کارکردگی کا اعادہ نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ہم آپ کے مشورے اور آپ کی مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بہتر حکومت کے قیام کیلئے دیرپا اقدامات وضع کر سکیں جو سیاسی تبدیلیوں سے متاثر نہ ہوں۔ یہ وہ عوام دوست اور ملک دوست پروگرام ہونے چاہئیں جو آنے والے ہر طرح کے حالات میں جاری و ساری رہیں۔ میرے خیال میں آج کے اس پروگرام کے تمام مباحث کا مطلوب و مقصود یہی ہونا چاہئے اور میری بھی یہ کوشش ہوگی کہ میں کسی بات کو دہرائے بغیر اس مقصد کے حصول میں اپنا حصہ ڈال سکوں۔میں خود ستائی سے گریز کرناچاہتا ہوں لیکن میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب ہم نے حکومت شروع کی تو ہمیں پچھلی حکومت سے ورثے میں کیا ملا؟ ہم نے چیزوں کی اصلاح کیلئے کیا اقدامات کئے؟ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیںاور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنے والے دنوں میں ہم ملک کے حالات کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں؟ کسی طویل بحث و مباحثہ میں پڑے بغیر میں اپنی گفتگو کا آغاز ایک مثال سے کرناچاہوں گا۔2008ءمیں جب ہم نے پنجاب حکومت سنبھالی تو میں نے ایک منصوبے کا دورہ کیا جو ” لاہور قصور روڈ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ 5ارب روپے کا ایک پراجیکٹ تھا جس کی منظوری2005ءمیں دی گئی اور اسے 2007ءمیں مکمل ہونا تھا۔ اس منصوبے کا میرا پہلا دورہ میرے لئے کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہ تھا۔دورے کے دوران یہ شرمناک حقیقت میرے علم میں آئی کہ منصوبے پر کسی تعمیراتی کام کے بغیر اربوں روپے کے فنڈز خوردبرد کرلئے گئے تھے۔موبلائزیشن ایڈوانس کے نام پر بھاری رقوم ادھر سے ادھر کردی گئی تھیں۔یہ تمام پیشگی ادائیگیاں مسلمہ اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال کر کی گئی تھیں اور ان کےلئے جعلی گارنٹیوں کا سہارا لیا گیا تھا۔منصوبے کے ایسے حصوں کی تکمیل کا معاوضہ بھی ادا کردیا گیا تھا جنہیں عملی طورپر چھوا بھی نہیں گیا تھا۔تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی با آسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا تھا کہ منصوبے کے نام پر جاری ہونے والے خطیر فنڈز یہاں سے بہت دورکہیں محفوظ ہاتھوں میں پہنچادئیے گئے ہیں اور عوامی فلاح کے نام پر تیارکیا گیامنصوبہ عملی طورپر ایک صحراءکا نقشہ پیش کررہا تھا۔صورتحال اس قدر دگرگوں تھی کہ اس منصوبے پرکام اور اسکی تکمیل کے بارے میں کوئی حتمی پیش گوئی کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتاتھا۔ میںنے دو برسوں میں پانچ مرتبہ اس منصوبے کا دورہ کیا،کئی ٹھیکیدار تبدیل کئے ان میں سے بعض بد عنوانوں کو گرفتارکرایاگیا، بعض سرکاری افسر معطل ہوئے اور پھر آخر کار ہم اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔یہ منصوبہ جو حقیقی معنوں میں سابق دور کی کرپشن کاقبرستان تھا آج عملی طورپر عوامی فلاح کا ایک مینار بن چکا ہے۔یہ سب کچھ نیک نیتی، محنت اور انتھک کوششوںسے حاصل ہونے والے نتائج کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ آپ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ یہ سب کچھ محض ایک فرد واحد کی کوششوں کا مرہون منت نہیں۔دنیابھرمیں اس طرح کے جتنے بھی کام ہوئے ہیں وہ اجتماعی دانش اور مشترکہ کوششوں اور ارادوں کے ذریعے ہی ممکن ہوسکے ہیں۔
اس معاملے میں اصل بات بے حسی،لا تعلقی اورکرپشن کے اس کلچر کو شکست دینا تھا جس کی جڑیں بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بہت دورتک چلی گئی ہیں۔اس وقت پنجاب میں، میں خود اور میری ٹیم جس میں میرے سیاسی رفقاءاور بیورو کریٹ دونوں شامل ہیں اسی کلچر کے خلاف صف آراءہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم مشترکہ مفادات رکھنے والے مافیا کے اس ناپاک گٹھ جوڑ کے خلاف یہ جنگ لڑ رہے ہیںجس کی جڑیں ہر اس معاشرے میں بہت گہری ہوتی ہیں جہاں ادارے ابھی ابتدائی حالت میں ہوتے ہیں اور احتساب کا کوئی مضبوط نظام موجود نہیں ہوتا۔
1998ءمیں ہم نے اپنے پہلے دور حکومت میں اہم منصوبوں میں تھرڈ پارٹی آڈٹ سسٹم متعارف کرانے کا پروگرام وضع کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ایک خاص مالیت سے زیادہ کا منصوبہ چاہے اس کا تعلق انفراسٹرکچر سے ہو،سوشل سیکٹر سے یا محکمہ صحت سے، اس میں ٹرانسپرنسی کے تقاضوں کو برقرار رکھنے کیلئے تھرڈ پارٹی آڈٹ ضروری ہوناچاہئے۔ جب اللہ کے فضل سے ہمیں صوبے میں عوام کی خدمت دوبارہ کرنے کا موقع ملا تو یہ سسٹم ایک مدت سے کرپشن کے ڈھیروں تلے دب چکا تھا۔ ہم نے گزشتہ چار سالوں میں مسلسل کوششوں کے بعد اسے پنجاب میں دوبارہ متعارف کرایا۔اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ کیا اس خودمختار آڈٹ سسٹم کا دائرہ کار پورے پنجاب پر محیط ہے یا نہیں؟ تو میرے لئے اس سوال کا اثبات میں جواب دینا یقینا مشکل ہوگا۔
تاہم یہ بات میں پورے اطمینان کے ساتھ اور بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس نظام کو نافذ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، اس میں روز بروز بہتری آرہی ہے اور یہ کہ اس کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔یہاں میں آپ کی خدمت میں ایک اور مثال پیش کرناچاہتا ہوں۔جی ہاں! اسی شہر لاہور میں یعنی حکومت کی عین ناک کے نیچے باب پاکستان کامنصوبہ زیر تکمیل ہے۔تقریباً4ارب روپے کی مالیت کا یہ منصوبہ 2004-05میں شروع کیا گیاتھا۔میں اس میں ہونے والی تاخیر کے اسباب میں نہیں جانا چاہتا۔(جاری ہے)