چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بلوچستان امن وامان کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ صوبے کے حالات بہترنہیں ہیں لیکن یہ بات تحریری طورپرنہیں کرسکتے کہ ہم ناکام ہوچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے پینسٹھ لاکھ افراد میں سے یہ صرف دوسو افراد کا مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالتوں کے ساتھ بہت مذاق ہوگیا، صوبے میں کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد محفوظ نہیں جبکہ تمام فورسزکی تعیناتی کے باوجود ایک ملزم بھی نہیں پکڑا گیا۔ دوران سماعت وفاق کے وکیل منیرپراچہ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سیکیورٹی کے کئی معاملات صوبوں کومنتقل ہوچکے ہیں، وفاق مداخلت نہیں کرسکتا۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ بلوچستان میں امن و امان کا گراف ابتر ہورہا ہے،صوبائی حکومت قیام امن میں ناکام ہوجائے توحالات پرقابوپانا وفاق کی ذمہ داری ہوتی ہے، جسٹس خلیجی عارف نے مزید کہا کہ بات ہاتھ سے نکل گئی توپھرہی اقدامات کیے جائیں گے، وقت آگیاہے کہ ملک کو بچانے کیلئے ہرشہری کو کھڑا ہونا ہوگا،مسلح افواج بہت محب وطن ہیں، صرف سترہ ججزنے ہی سب کچھ نہیں کرنا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سب کیلئے واضح پیغام ہے کہ بلوچستان کا خیال کریں، سپریم کورٹ نے پولیس، ایف سی کے سربراہان اور چیف سیکرٹری سے مشترکہ تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں صوبے کے حالات پرگہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے صوبائی انتظامیہ، پولیس اورایف سی سے مشترکہ جواب طلب کرلیا۔
Jul 25, 2012 | 20:56