بھارت کا دریائے چناب پر بگلیہار سے پانچ گنا بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان ........ ہم خود ڈیمز تعمیر کر کے ہی بھارتی آبی جارحیت کا توڑ کر سکتے ہیں

بھارتی آبی جارحیت کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا ہے اور اس نے دریائے چناب پر بجلی بنانے اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بگلیہار ڈیم سے پانچ گنا بڑا پاکل دل ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا ہے جس پر آئندہ ماہ اگست کے پہلے ہفتے میں ترقیاتی کام کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکل دل ڈیم پر تعمیری کام کیلئے ٹینڈر 3 اگست کو کھولا جائے گا اور چار برسوں میں ڈیم کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبوضہ وادی میں تعمیر ہونے والے اس مجوزہ ڈیم میں ایک لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہو سکے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر کیلئے بھارت غیر ملکی اداروں سے بھی امداد حاصل کر رہا ہے۔ دوسری جانب پاکل دل ڈیم کے اس مجوزہ منصوبے پر حکومت پاکستان اور انڈس واٹر کمشنر مکمل خاموش ہیں اور اس ڈیم پر کسی قسم کا اعتراض نہیں اٹھایا گیا جس کے باعث قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بھارت اگست کے مہینے میں اس ڈیم کی تعمیر کا باقاعدہ طور پر آغاز کر دے گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ ڈیم فاسٹ ٹریک بنیادوں پر تعمیر ہو گا جبکہ اس کی تعمیر سے دریائے چناب کا بہاﺅ شدید متاثر ہو گا۔
کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریاﺅں پر ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ حکام کی غفلت، بے نیازی اور عملیت پسندی سے عاری رویوں کے باعث ہی بھارت کو ڈیمز کے انبار لگانے کا موقع ملا ہے۔ عالمی بنک کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ءمیں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے میں بھی بھارت کے حق میں ڈنڈی ماری گئی اور پاکستان کو تین دریاﺅں کے پانی سے استفادہ کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا جبکہ دوسرے تین دریاﺅں سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کو پہلے ڈیم تعمیر کرنے کا حق دیا گیا اور ساتھ ہی باور کرایا گیا کہ پاکستان کی جانب سے یہ حق استعمال ہونے کے بعد بھارت بھی ان دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کرنے کا مجاز ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کیلئے ڈیمز کی تعمیر کی اہمیت کا ادراک ہی نہ کیا چنانچہ ایوب دور میں تعمیر ہونے والے منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد آج تک کوئی نیا ڈیم تعمیر ہی نہیں ہو سکا۔ ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے اور ملکی صنعت و معیشت کی ترقی کے ضامن کالا باغ ڈیم کو مفاد پرست طبقات نے اس کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوتے ہی متنازعہ بنا دیا۔ اے این پی نے اپنی سیاست کا محور ہی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کو منشور بنایا اور اس کی تعمیر کی صورت میں اے ڈائنامائیٹ مار کر تباہ کرنے دھمکیاں دی گئیں جبکہ سندھی قوم پرستوں کے ایک گروپ نے اس ڈیم کے خلاف مزاحمت کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا جس کا پیپلز پارٹی نے بھی ساتھ دیا، نتیجتاً فزیبلٹی رپورٹ تیار ہونے کے باوجود کالا باغ ڈیم کو سیاست کی نذر کر دیا گیا اور پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر پیپلز پارٹی ہی نہیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی کالا باغ ڈیم پر اے این پی کی بلیک میلنگ کو قبول کر لیا چنانچہ اے این پی کے قائدین کو کھلم کھلا یہ دعوے کرنے کا موقع ملا کہ ہم نے کالا باغ ڈیم کی فائل دریائے سندھ میں ڈبو دی ہے۔مسلم لیگ (ن) بھی برسر اقتدار آ کر کالا باغ ڈیم کا نام لینے سے گریزاں ہے اور یہ طرفہ تماشہ ہے کہ کالا باغ ڈیم تو کجا، ملک میں کسی دوسرے ڈیم کی تعمیر کیلئے بھی کسی دورِ حکومت میں کوئی عملی پیشرفت نہیں کی گئی، نتیجتاً بجلی کی طلب پوری نہ ہونے سے ہم گذشتہ دس سال سے توانائی کے سنگین بحران کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران مہنگی تھرمل بجلی پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں جو ہائیڈل بجلی کا کسی صورت متبادل نہیں ہو سکتی۔
اگر سندھ طاس معاہدے کے تحت بھی ہم تین دریاﺅں پر پہلے ڈیمز تعمیر کرنے کا حق استعمال کر لیتے تو اس کے بعد بھارت کیلئے ان دریاﺅں پر ڈیم تعمیر کرنے کی شاید گنجائش ہی نہ نکل پاتی مگر ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور ڈیمز پر سیاست چمکانے والے مفاد پرست سیاستدانوں کی حب الوطنی سے عاری سوچ نے بھارت کو دریائے چناب، جہلم (نیلم) اور سندھ پر ہم سے پہلے ڈیمز بنانے کا موقع فراہم کیا جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایااور خوابِ غفلت میں ڈوبے ہمارے حکمرانوں اور انڈس واٹر کمشن کے حکام کو بھارت کی جانب سے دریائے جہلم (نیلم) پر بگلیہار ڈیم کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد ہوش آئی جنہوں نے بغیر تیاری کے اس ڈیم کے ڈیزائن کو عالمی عدالتِ انصاف میں چیلنج کیا مگر اس وقت تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا چنانچہ پاکستان متعلقہ حکام کی غفلت کے نتیجہ میں یہ کیس ہار گیا اور یہ ڈیم اب اپنی تکمیل کے بعد بھارت کے توانائی کے وسائل میں اضافہ کا موجب بن رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ بھارت کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے موقع پر ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ حکام کی غفلت کی دلیل بنا، اس ڈیم پر بھی بھارت نے جب آدھی سے زیادہ تعمیر مکمل کر لی تو ہمارے بادشاہوں کو اس کے ڈیزائن پر اعترض اٹھانے کی توفیق ہوئی۔ اگرچہ عالمی بنک نے اس ڈیم کی تعمیر پر حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے مگر ہمارے حکام کی روایتی غفلت اور کام چوری کے نتیجہ میں بھارت بالآخر یہ ڈیم تعمیر کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے گا کیونکہ اس ڈیم پر تین چوتھائی کام وہ پہلے ہی مکمل کر چکا ہے۔
بھارت نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے ملک اور مقبوضہ وادی میں چھوٹے بڑے ڈیموں کے انبار لگا چکا ہے جبکہ بھارتی سپریم کورٹ کے ذریعے تمام دریاﺅں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرا کے بھارتی حکومت نے دریائے سندھ پر بھی ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور اب اس کے بلند ہوتے حوصلے اس کیلئے دریائے چناب پر بھی ایک لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے پاکل دل ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ آسان بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہماری سالمیت اور آزادی و خود مختاری کے درپے رہنا بھارت کا بنیادی ایجنڈہ ہے جس پر وہ کامیابی کے ساتھ عمل پیرا بھی ہے مگر کیا ہم خود بھی اپنے دشمن نہیں بنے بیٹھے ؟ بھارت میں تو آج تک کسی ڈیم کی تعمیر پر پارلیمنٹ کے اندر یا باہر کسی سیاستدان یا کسی بھی طبقے نے کبھی کوئی اعتراض اٹھایا نہ کسی بھارتی ڈیم کو آج تک متنازعہ بنایا گیا اور نہ ہی کسی ڈیم کی تعمیر کیلئے تمام بھارتی ریاستوں کے اتفاق رائے کی ضرورت محسوس کی گئی، اگر یہ بُری روایت ہمارے ملک میں ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں، مختلف گروہوں اور خود حکمرانوں کی جانب سے قائم کی گئی ہے تو ہمیں کسی اور کو دوش دینے سے پہلے اپنی صفیں تو درست کرنی چاہئیں۔ اگر ہمارے مفاد پرست سیاستدان کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں پیدا نہ کرتے اور اسکے ساتھ ساتھ اپنی ضرورت کے مطابق ہم دوسرے ڈیم بھی تعمیر کر چکے ہوتے تو ہم توانائی کی پیداوار میں خودکفیل بھی ہو چکے ہوتے اور بھارت کی آبی جارحیت والی سازشوں سے بھی محفوظ رہتے۔ ابھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو نوید سُنائی ہے کہ عالمی بنک نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے بھارت سے این او سی لینے کی پابندی ختم کر دی ہے تو کیا حکومت کو اس موقع سے فوری طور پر فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے۔ ہمارے حکمرانوں کی تو شاید ترجیحات ہی کچھ اور ہیں اور وہ اپنے ملک کے آبی وسائل کے بل بوتے پر ہائیڈل بجلی کی پیداوار کو ضروری ہی نہیں سمجھ رہے جبکہ وہ توانائی کے حصول کے دوسرے ذرائع پر توجہ دے رہے ہیں حالانکہ ہائیڈل بجلی انتہائی سستے نرخوں ہمیں وافر مقدار میں دستیاب ہو سکتی ہے یقیناً اسی تناظر میں سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے گذشتہ روز حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ بھارت کے ساتھ اصل ایشوز پر فوکس کے بجائے محض علامتی باتیں ہو رہی ہیں، جب ہمارے حکمران بھارت کیلئے اتنے ریشہ خطمی ہوئے بیٹھے ہوں کہ وہ اصل ایشو کشمیر کو پش پشت ڈال کر ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ڈھکوسلے سے بھارت کے ساتھ دوستی کے دروازے کھولے بیٹھے ہوں تو اس صورتحال میں ان سے بھارتی آبی جارحیت کا توڑ کرنے کی کیا توقع کیا جا سکتی ہے جبکہ بھارت کشمیر پر تسلط جما کر ہی ہم پر آبی جارحیت کی پوزیشن میں آیا ہے۔ اگر ہماری اپنی جھولی میں اتنے چھید ہیں تو ہم بھارتی آبی منصوبوں پر محض تنقید کر کے کیا حاصل کر پائیں گے۔
اس صورت حال میں بہتر یہی ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کر کے اپنی کوتاہیوں پر قابو پایا جائے اور پاکل دل ڈیم سمیت قواعد و ضوابط اور سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی تمام بھارتی آبی منصوبوں کو مکمل تیاری کے ساتھ عالمی عدالت انصاف اور عالمی بنک میں بروقت چیلنج کیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ خود بھی اپنے تمام مجوزہ ڈیمز کی تعمیر کا آغاز کر دیا جائے ورنہ بھارت کا کام ہم خود ہی مکمل کردیں گے اور اپنے پیاسے مرنے کا انتظام کر بیٹھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن