مشترکہ مفادات کی کونسل میں پہلی بار تمام صوبوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھنے میں آئی ہے۔ اور شاید یہ پہلا موقع ہے جب تمام صوبوں کے ساتھ کسی وزیراعظم نے مساوی سلوک کیا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے تو مشترکہ مفادات کی کونسل میں صوبے صرف شکایات لے کر آتے تھے اور شاید یہ اسی اتفاق کا نتیجہ ہے کہ پہلی بار کراچی میں بجلی اور گیس کی چوری روکنے کے لئے چھاپوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ سہراب گوٹھ پر تین سو سے زیادہ جعلی گیس کنکشن کاٹ دئیے گئے۔ یقینی بات ہے کہ اب اس سلسلہ میں اضافہ ہو گا اور کراچی میں کنڈے ڈال کر بجلی چوروں کے خلاف انتہائی سخت کارروائی عمل میں آئے گی۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے ایف آئی اے میں ایک سپیشل ونگ بھی قائم کر دیا ہے اور اگر پولیس‘ رینجرز اور ایف آئی اے کے مشترکہ آپریشن کی مزاحمت کی جائے تو پھر فوج کی خدمات سے استفادہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے پہلی بار توانائی کے مسئلہ پر صوبوں کو مکمل اعتماد میں لیا ہے۔ اور صاف بتا دیا ہے کہ جب تک صوبے بجلی اور گیس چوری کو نہیں روکیں گے اتنی دیر تک توانائی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے مختصر عرصہ میں توانائی کا بحران کچھ کم ہوا ہے ۔
رمضان کا مہینہ ہے اور قرآن مجید کی تلاوت تو ہر مسلمان کرتا ہی ہے اور سنتا بھی ہے۔ قرآن حکیم میں انسان کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔ ٹیلی ویژن پر ہر چینل نے پنجاب حکومت کے رمضان بازاروں کی کوریج کی اور حیرت انگیز بات ہے کہ ہر کسی نے حقائق سے ہٹ کر منفی کوریج کی۔ انٹرویو دینے والے نے مختلف سبزیوں پھلوں اور دیگر مصنوعات کے متعدد تھیلے ہاتھ میں پکڑے ہوتے تھے اور کیمرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ بولتا تھا کہ یہاں معیاری مصنوعات نہیں ہیں‘ ورائٹی زیادہ نہیں ہے‘ ریٹس کا بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اگر انٹرویو دینے والے کی بات سچ ہے تو انٹرویو لینے والا یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ آپ نے اتنی خریداری کیا سوچ کر کی ہے‘ یہی ناشکرا پن توانائی کے شعبہ میں دیکھنے میں آرہا ہے اگر چند مقامات پر بجلی کے نااہل عملے کی وجہ سے سحری اور افطاری کے وقت لوڈشیڈنگ ہوئی ہے تو اس کا موازنہ 99 فیصد علاقے سے کیسے کیا جا سکتا ہے جس کی بجلی تسلسل کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ من حیث القوم ہماری یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ہم اللہ کے ناشکرے تو تھے ہی اب ہم اچھے کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا بھی پسند نہیں کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو مزید نعمتوں سے نوازتا ہے۔ محمد نواز شریف کے علم میں آچکا ہو گا کہ بھارت نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم سے پانچ گنا ڈیم بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی بھارتی آبی جارحیت کی وجہ سے پاکستان کا پانی اب بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ ان حالات میں کالا باغ ڈیم ناگزیر ہو جاتا ہے کیونکہ صرف اس ڈیم کے بننے سے سو ارب روپے کا پانی سمندر میں ضائع ہونے سے روکا جا سکتا ہے ویسے ایک بات کی حیرت ہے کہ واپڈا شمالی علاقوں میں قدرتی گرتے ہوئے پانی کو استعمال کرتے ہوئے دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا لیکن ابھی تک کوئی ایسی خبر باہر نہیں آئی ہے کہ واپڈا نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو اتنی سستی بجلی بنانے کے منصوبے سے آگاہ کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے غیبی ہاتھ یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان تیل کی مہنگی بجلی بناتا رہے اور ”آئل کارٹل“ کو دن رات اپنے اثاثے ڈبل ٹرپل کرنے کے مواقع دیتا رہے۔وزیراعظم کا آٹھ بجے کاروبار بند کرنے کا آئیڈیا ناقابل عمل ہے۔ جلدی دکانیں کھولنے سے کسٹمرز نے نہیں آجاتا۔ کوئی قوم اپنی روایات اور کلچر کے خلاف خریداری نہیں کرتی‘ پاکستان خصوصاً لاہور کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں تو شاپنگ کے لئے آٹھ بجے نکلنے کا کلچر ہے ۔دوسری طرف ہمارے کارخانوں کا الیکٹریسی آڈٹ ماہرین سے کرایا جائے تو ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کی بچت ممکن ہے۔