اسلام آباد (اے پی اے) سپریم کورٹ نے نئے اسلام آباد ائرپورٹ کی تعمیر میں بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت میں وزیراعظم کے مشیر برائے ہوابازی شجاعت عظیم کو دوہری شہریت رکھنے اور کورٹ مارشل کے باوجود عہدہ حاصل کرنے پر ذاتی طور پر وضاحت کیلئے آج طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور کو ہدایت کی ہے کہ شجاعت عظیم کی اہلیت‘ قابلیت اور حب الوطنی کے بارے میں تفصیلات عدالت میں پیش کی جائیں۔ تقرری کا تمام تر ریکارڈ اور سمریاں بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ حکومت سے متعلقہ جس معاملے کو اٹھاتے ہیں اسی میں بے قاعدگی‘ بددیانتی اور نااہلی نظر آتی ہے کیا یہ کام اب سپریم کورٹ کا رہ گیا ہے حکومتی معاملات کا ہر وقت جائزہ لیتی رہے، کیا انتظامیہ نے اپنا کام اور ذمہ داری ادا نہیں کرنی‘ ملکی بقاءاور تحفظ جیسے حساس معاملات پر مبنی ادارے میں ملکہ اور انکے بچوں کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے اور کورٹ مارشل کی سزا بھگتنے والے شخص کو مشیر بنادیا گیا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیا دوہری شہریت رکھنے والے ملک کے زیادہ وفادار ہیں کہ حکومت نے آنکھیں بند کرکے حساس ادارے کا مشیر مقرر کردیا جو آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسلام آباد ایئرپورت کی تعمیر کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران افتخار گیلانی ایڈووکیٹ اور متعلقہ حکام پیش ہوئے۔ عدالت عالیہ نے پوچھا کہ کیا 17 کنٹریکٹرز کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں، کیا ان کے جواب آئے ہیں، پاسپورٹ جمع کرادئیے تاکہ وہ ملک نہ چھوڑ سکیں۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ ہم نے تمام کنٹریکٹرز کو نوٹس جاری کردئیے تھے اس حوالے سے تمام تر رسیدیں لگی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی نے پاسپورٹ جمع نہیں کرائے تو ہم ان کیخلاف حکم جاری کریں گے۔ انکوائری افسر شاہد نواز کی رپورٹ پر بھی حکومت کا ردعمل اور دیگر فریقین کے جواب آنے چاہئیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے ہوابازی شجاعت عظیم کی دوہری شہریت کے حوالے سے حکومت کیا کہنا چاہتی ہے ہم نے ابھی انہیں نوٹس جاری نہیں کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے بتایا کہ شجاعت عظیم کینیڈین شہریت بھی رکھتے ہیں۔ ایئرپورٹس کے حوالے سے تمام تر سرگرمیاں وہ چلا رہے تھے یہ بھی درست ہے۔ اس معاملے میں چوہدری منیر ان کے پارٹنر ہیں۔ وہ استعفیٰ دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 92 کو آرٹیکل 63 کیساتھ ملا کر پڑھنا پڑے گا تبھی مشیر مقرر کر سکیں گے۔ آئین کی کنونشنز کو دیکھنا ہوگا۔ ہم 65 سال نو کری کرنے کے بعد تو آئین و قانون نہیں سیکھ رہے، ہم نے اب تک بہت عزت کی ہے اب ہم انہیں نوٹس جاری کریں گے حکومت بھی جواب دے گی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ شجاعت عظیم رائل ایئرپورٹ سروسز کے چیف ایگزیکٹو بھی تھے۔ ان کے کورٹ مارشل کے حوالے سے ان کے پاس ہدایات نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ وزیر کا سٹیٹس رکھتے ہیں۔ شاہ خاور نے کہا کہ جی ہاں ان کا عہدہ وزیر کے برابر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ شجاعت عظیم کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی پیش کریں۔ آئین و قانون کے تقاضے کے مطابق مشیر دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ مشیر ایم این اے‘ ایم پی اے نہیں بن سکتا تو مشیر دفاع کیسے بن سکتا ہے۔ جب معاملات واضح نہ ہوں تو اس پر سوالات ضرور اٹھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سٹریٹجک معاملات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ سول ایوی ایشن اہم ادارہ ہے۔ یہ ملک کے وقار کی بات ہے ورنہ شجاعت عظیم کو بلالیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اکاﺅنٹنٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق لگ تو یہی رہا ہے کہ یہ پوسٹ انتظامی ہوتی ہے۔ ایئرپورٹ تعمیر کرنے والی کمپنی کی جانب سے خواجہ حارث ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ انہوں نے دلائل دئیے۔ شاہ خاور نے بتایا کہ بطور سی ای او شجاعت عظیم استعفیٰ دے چکے ہیں، ایڈوائزر کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ایئرفورس میں ان کو مختلف عہدوں پر تعینات کیا گیا اور ان کا کورٹ مارشل بھی کیا گیا۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ شجاعت عظیم پر الزام کیا تھا اس پر شاہ خاور نے بتایا کہ انہیں تھوڑے وقت میں جو معلومات مل سکی ہیں وہی وہ عدالت کو بتارہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اتنی مختصر معلومات کیوں دے رہے ہیں بارہ دن تو نہیں دے سکتے۔ آپ معلومات نہیں دینا چاہتے تو ہم کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں جو آپ بارہ گھنٹے میں نہیں بتا سکتے ہم آدھے گھنٹے میں معلوم کرلیں گے۔ ایوی ایشن کے مشیر سے عدالت نے کہاکہ وہ جائیں اور شجاعت عظیم کے حوالے سے معلومات حاصل کرکے عدالت میں پیش کریں۔ اس کیلئے عدالت نے آدھے گھنٹے کا وقت دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ابھی ایس ایس جی والے معلومات دے دیں گے۔ ٹیکنو کمپنی کی طرف سے شاہد حامد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت سے شجاعت عظیم کے حوالے سے پوچھا تھا کہ یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ ہمیںحقائق سے آگاہ کرتے مگر آپ کو خود بھی اگر شجاعت عظیم بارے میں معلومات نہیں تو پھر اس کی تعیناتی کیسے کردی گئی۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ شجاعت عظیم کی دوہری شہریت کے حوالے سے وفاق کا کیا موقف ہے؟ اس کا شاہ خاور نے جواب نہیں دیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کسی بھی شخص کی تقرری کیلئے چھان بین ضروری تھی مگر یہ ایک حساس ادارہ ہے۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ہیں دوہری شہریت والے مگر ہمارے ملک کے بہت زیادہ وفادار ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ اے ٹی سی جب تک اجازت نہ دے کوئی طیارہ لینڈ نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ایئر ٹریفک کنٹرول کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ ملک کی سکیورٹی کا معاملہ ہے جو کسی دوہری شہریت کے حامل شخص کے کس طرح حوالے کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سٹریٹجک مسائل کو سول ایوی ایشن نے حل کرنا ہوتا ہے۔ اس نے تو کسی دوسرے ملک کیساتھ وفاداری کا حلف لیا ہوا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس نے تو ملکہ الزبتھ کیساتھ وفاداری کا حلف لیا ہوا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کی درخواست بھی اسی وجہ سے خارج کی تھی کہ وہ کینیڈین شہریت رکھتے تھے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ سمریاں دکھادیں جس سے ہم ان کی قابلیت‘ اہلیت اور حب الوطنی کا اندازہ کرسکیں۔ شاہ خاور نے کہا کہ مجھے اس حساس معاملے کی وجہ سے مزید ہدایات درکار ہیں اسلئے وقت دیا جائے۔ جسٹس جواد نے کہاکہ موصوف تو کینیڈا کی شہزادی کے بچوں کے بچوں کا بھی وفادار رہنے کا حلف لے چکے ہیں ان کو ہم کیا کہیں۔ افتخار گیلانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل‘ ایڈووکیٹ جنرل اور گورنر سب کیلئے کوئی نہ کوئی اہلیت کا معیار ہے مگر آرٹیکل 95 میں مشیر کی تعیناتی کا کوئی معیار نہیں۔ جسٹس جواد نے شاہ خاور سے کہا کہ ہمیں آپ سے کافی توقعات ہیں آپ مہربانی کرکے ہمیں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ شاہ خاور نے کہا کہ سمری اور دیگر حوالوں سے جمعرات کو جواب دے سکتا ہوں وقت دے دیں۔ چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے کہ ہم آپ کو جمعرات کا وقت دے دیتے ہیں۔ سیکرٹری دفاع سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ شجاعت کے کورٹ مارشل کے حوالے سے تفصیلات عدالت میں پیش کردیں۔ چیف جسٹس نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کو مختلف فریقین کے جوابات کی کاپیاں نہیں مل سکیں کہ جس پر وہ کمیشن فائل کرسکیں۔ شاہد نیاز نے اپنی رپورٹ فائل کی ہے۔ فریقین کی جانب سے بھی جواب داخل کیا گیا ہے۔ تمام تر ڈاکومنٹس فائل کئے جائیں۔ عدالتی معاونت کیلئے فریقین کا ایک دوسرے کے موقف سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ایوی ایشن ڈویژن کی جانب سے بھی بیان داخل کیا گیا ہے جس میں ہمارے حکم پر عمل کیا گیا ہے جس کو سماعت کا حصہ بنایا گیا۔ جوابوں کا جائزہ لینے کے بعد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور کے جواب سے ہم اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ وزیراعظم کے مشیر برائے ہوابازی شجاعت عظیم کو طلبی کا نوٹس جاری کریں اسلئے انہیں نوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ایوی ایشن ڈویژن کو وزارت دفاع سے الگ کردیا گیا ہے۔ شجاعت کو وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا وہ عدالت میں پیش ہوکر وضاحت کریں کہ آرٹیکل 93(1)(2) کے تحت ان کی تقرری صحیح تھی یا نہیں۔ جب وہ ایئرفورس کی ملازمت میں تھے ان کا کورٹ مارشل ہوا تھا وہ دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں سابق افسر آف رائل فورس سروسز رہے ہیں۔ آرٹیکل 63 کے تحت دوہری شہریت کے باوجود وہ حکومتی عہدہ اپنے پاس کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ایس ای سی پی رائل ایئرپورٹ سروسز کی تفصیلات اور ان کے عہدیداروں کے حوالے سے تفصیلات عدالت میں پیش کریں۔ شاہد حامد نے چوہدری منیر احمد کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وہ شجاعت عظیم کے پارٹنر نہیں۔ ایس ای سی پی کے ریکارڈ سے اس بات کا پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ وہ پارٹنر تھے یا نہیں اس حوالے سے ایس ای سی پی جواب داخل کرے۔ 25 جولائی کو جواب دیا جائے۔