لاہور (خصوصی رپورٹ) ”مصور پاکستان، حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی نجی محفلیں ہر قسم کے رسمی تکلفات سے بے نیاز ہوتیں، ہر کوئی بلاروک ٹوک ان میں شریک ہوتا۔ دنیا کے مصائب اور مشکلات کا بہترین علاج اقبالؒ کی صحبت تھی۔ کوئی حکیم صاحب آتے تو طب کے متعلق باتیں، کوئی اخبار نویس آیا تو سیاسیات پربحث، ایک جرمن سیاح آیا تو فلسفہ خودی اور زمان و مکاں پر بحث، بات کسی قسم کی ہو علامہ اقبالؒ کا اپنا رنگ قائم رہتا۔ کسی قسم کا موضوع ہو علامہؒ اس میں مزاح کا پہلو نکال لیا کرتے۔ بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حکایات سنانے میں انہیں ایسا ہی کمال حاصل تھا جس طرح فلسفہ کے مسائل بیان کرنے میں تھا“ ان اور ان جیسے بے شمار حقائق اور تاریخی واقعات کا اظہار علامہ اقبالؒ کے بعض انتہائی قریبی دوستوں، ساتھیوں اور حاشیہ نشینوں نے اپنی یادوں میں کیا ہے، جسے علامہؒ کی وفات کے فوراً بعد محمود نظامی نے مرتب کیا اور اب ماہنامہ آتش فشاں نے ”علامہ اقبالؒ، قریب سے“ کے عنوان سے اس تاریخی دستاویز کو پچاس سے زائد تاریخی اور نایاب تصاویر کے ساتھ شائع کر دیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے ان سترہ قریبی ساتھیوں میں یہ شخصیات بھی شامل ہیں۔ شیخ سر عبدالقادر، میاں بشیر احمد، پروفیسر حمید احمد خاں، علامہ محمد حسین عرشی، ایم ڈی تاثیر، حکیم محمد حسن قرشی، عابد علی عابد، خضر تمیمی، جاوید اقبال، حفیظ ہوشیارپوری اور مرزا جلال الدین بیرسٹر، مرزا جلال الدین بیرسٹر کی علامہ اقبالؒ کے ساتھ تینتیس (33) برس انتہائی قریبی اور بے تکلف دوستی رہی۔ انہوں نے اپنی طویل ترین اور قومی اور علمی نقطہ نگاہ سے انتہائی اہمیت کی حامل یادوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ”علامہ کلام پاک پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران میں جب وہ باآواز بلند پڑھتے تو وہ آیات قرآنی پر فکر کرتے اور اس سے متاثر ہو کر رو پڑتے۔ مرزا جلال الدین بیرسٹری نے کہا کہ میرے مکان پر چونکہ رقص و سرود کی محفلیں اکثر جما کرتیں اس لئے علامہ مجالس میں بڑی رغبت سے شمولیت فرماتے اور بعض اوقات رقص و سرود کے دوران میں ہی اپنی کسی نظم کی بنیاد رکھ دیتے۔ ”یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے“ والی نظم کی بنیاد بھی ایک ایسی ہی مجلس میں رکھی گئی تھی۔ عبدالرشید طارق نے علامہ کے جذبہ ترحم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ علامہؒ نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی زیادہ کرائے پر محض اسلئے لے لی کہ یہ دو ہندو یتیم بچوں کی وراثت تھی اور اتنا زیادہ کرایہ کوئی اور دینے کو تیار نہ تھا۔