نواسی رسول ﷺ بی بی زینب بنت علی ؓ اور سیف اللہ حضرت خالد بن ولید ؓ کے مزاروں کو شہید کئے جانے کی خبر نے دل چیر کر رکھ دیا ہے۔سحر و افطار میں اللہ کے حضور گڑ گڑا کر توبہ مانگی جائے تب بھی شاید قبول نہ ہو گی کہ امت زوال کے اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں یہ کھوکھلی توبہ بھی مسترد کر دی جاتی ہے۔خالد بن ولیدؓ لشکر اسلام کے وہ کمانڈر آف چیف تھے جنہیں آقا نامدار ﷺ نے”سیف اللہ“ کے لقب سے نوازا۔آپ آخری ایام میں فرماتے ہیں ”میں ایک اونٹ کی طرح ایک بستر پر جان دے رہاہوں،اس پر مجھے سخت شرمندگی ہے کہ میں میدان جنگ میں شہید نہیں ہو سکا “یہ افسوس اور شرمساری وہ مجاہد کر رہے ہیںجنہیں اللہ کے رسول ﷺ نے ”سیف اللہ“ کا لقب دیا ۔وجود کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا ،جہاں نیزے اور تیر و تلوار کے زخم نہیںتھے ،جنہوں نے تین سو سے زائد جنگوں میں حصہ لیا اور کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ان کے نام سے ایران اورر وم کے بادشاہوں پر دہشت طاری ہو جایا کرتی تھی۔سیف اللہ خالد بن ولیدؓ کی زوجہ نے انہیں تسلی دی کہ جب اللہ کے نبی ﷺ نے آپ کو سیف اللہ کا خطاب دیا تو اللہ نے آپ سے جو کام لینا تھا لے لیا،اب اللہ کی تلوار کسی کافر کے ہاتھوں نہیں کٹ سکتی، آپ کی شہادت اس بستر پر لکھ دی گئی ۔تاریخ گواہ ہے کہ صرف عالم اسلام ہی نہیں پوری انسانی تاریخ میں خالد بن ولید ؓ جیسی جنگی حکمت عملی کا کوئی ثانی نہیں ۔خالد بن ولید ؓ پیدائشی جنگجو تھے۔قبیلہ قریش سے ان کا تعلق تھا ،ان کے والد عبید بن ولید ؓ نے انہیں بچپن سے ہی جنگی حکمت عملی اور جنگ کے تمام ہنر سکھا دئے تھے۔اس وقت کون جانتا تھا کہ وہ خالد بن ولیدؓ جو غزوہ احد میں کفار کے لشکر کے کمانڈر تھے ،ایک دن مسلمانوں کے لشکر کے سپہ سالار بنیں گے اور سیف اللہ کا خطاب پائیں گے۔غازی خالد بن ولید ؓ کی فتوحات کے پس پشت روحانیت پوشیدہ تھی۔ ایک مرتبہ حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے بال کٹوائے تو سیدنا خالد بن ولید ؓ نے وہ بال اٹھا لئے ،نبی کریم نے وجہ پوچھی تو خالد بن ولید ؓ نے جواب دیا ’یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کے بال مبارک میرے پاس رہیں گے ،ان کی برکت سے انشا ءاللہ میں ہر جنگ میں فتح پاﺅں گا ‘۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ،بے شک ان بالوں اور میری دعا کی برکات سے تمہیں ہر جنگ میں فتح نصیب ہو گی“۔ خالد بن ولید کے اندر کا ذہین اور نڈر جنگجو روحانیت کی دولت سے فیضیاب ہوا تو انہوں نے تین سال کے مختصر عرصہ میں شام اور ایران کے پرخچے اڑا دئے۔ حضور اقدس ﷺ کو خالدؓ بہت پسند تھے۔جب سیدنا خالد ؓ کی تعریف حضور کے سامنے کی جاتی تو آپ فرماتے کہ یہ خصوصیات جس شخص میں ہوں گی وہ اسلام قبول کر لے گا‘۔خالد بن ولید ؓ جن صلاحیتوں کے مالک تھے ،نبی کریم ﷺ آپ کے قبول اسلام کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے۔یہ کیسے ممکن تھا حضور ﷺ کسی کے حق میں دعا فرمائیںاور اسے شرف قبولیت نہ بخشا جائے۔ یہی ہوا کہ غزوہ احد کے بعد ایک روز خالد ؓ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضور کی خدمت میں حاضرہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔یہ وہ وقت تھا جب خالدد بن ولیدؓ مسلمانوں کے لئے طاقت اور بازو بن کر ابھرے۔خالد بن ولید ؓ کے قبول اسلام کے بعد پہلا معرکہ جنگ موتہ تھا۔دمشق میں معرکے انجام دئے اور دمشق پر بھی قبضہ کر لیا۔دمشق کی جنگ کے دوران مدینہ میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتقال ہو جاتاہے اور حضرت عمرؓ خلافت کا منصب سنبھالتے ہیں۔دمشق کی جنگ کے دوران ہی حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓکے نام ایک مکتوب روانہ کر دیا تھاجس میں خالد بن ولید ؓ کے کمانڈر آف چیف کی حیثیت سے معزولی کے احکامات تھے اور ان کی جگہ ابو عبیدہ ابن جراحؓ کو عہدہ سنبھالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ابو عبیدہ ؓ اس حکم سے بہت رنجیدہ ہوئے مگرچونکہ امیر المومنین کا حکم تھالہذا تعمیل لازم تھی ۔جب یہ بات حضرت خالد بن ولید ؓ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے جس رد عمل کا اظہار کیا اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔خالد بن ولید ؓ وہ جرنیل تھے کہ جس جنگ میں شریک ہوتے اس پر فتح کی مہر ثبت ہو جاتی ،ان خالدؓ سے جب کہا جا رہاتھاکہ آپ کو مسلم لشکر کی قیادت سے معزول کرکے ایک سپاہی بنایا جا رہاہے تو اس مجاہد اور غازی کا مقام دیکھئے کہ فرماتے ہیں کہ” اگر عمر ؓکے لئے لڑتا تھا تو اب نہیں لڑوں گا لیکن اگر اللہ کے لئے لڑتا تھا تو اسی طرح ایک سپاہی کی طرح لڑوں گا “۔عمر فاروق ؓ نے اس حکم نامہ پر وضاحت پیش کی کہ لوگوں کو شاید یہ شک ہونے لگا تھا کہ فتح خالد ؓ کی وجہ سے ہوتی ہے ،لوگوں کا توکل کمزور ہو رہا تھا اس لئے میں نے یہ قدم اٹھایا ورنہ میرے دل میں خالد ؓ کا وہی مقام ہے جو رسول اللہ ﷺ کے دل میں تھا۔خالد بن ولید ؓ کے حوالے سے جنگ یرموک تاریخ میں معرکہ آرا جنگ کے نام سے یاد کی رکھی جاتی ہے۔ اگر جنگ یرموک میں صلیبی فوج کامیاب ہو جاتی تو ان کا اگلا ہدف مدینہ کی ریاست تھا۔”ٹائیگرز آف اسلام“حضرت خالد بن ولید ؓ نے شام فتح کیا اور حمص کو اپنا مسکن بنالیااسی شہر میں آپ نے اکیسویں ہجری میں انتقام فرمایا۔حضرت خالد بن ولیدؓ جنہیں ابو سلیمان بھی کہا جاتا تھاکی وفات کی خبر جب شام سے مدینہ پہنچتی ہے تو مدینہ میں کہرام مچ گیا ،امیر المومنین عمر فاروق نے ؓ جب یہ خبر سنی تو آپ آبدیدہ ہو گئے اور اہل مدینہ سے فرمایا کہ اس خبر پر جو آنکھ رونا چاہتی ہے آج رو لے کہ ابو سلیمان جیسے لوگوں پر رونے کا موقع نہیں ملے گا۔
حضرت خالد بن ولید ؓکو جب قبر میں اتارا جا رہا تھا تو صحابہ رسول ؓتو رو رہے ہی تھے،ان کا گھوڑا اشکر جس پر سوار ہو کر تمام جنگیں لڑیں،اسکی آنکھیں بھی اشکبار تھیں۔ایک جانور کا اپنے سوار ،سپہ سالار اپنے مالک کی جدائی میں آنکھ سے آنسو جاری ہونے کا منظر سب نے دیکھا اورانہیں خالد بن ولید ؓ ” سیف اللہ “ کے روضہ کو آج شہید کر دیا گیالیکن مسلمان کی آنکھ خشک ہیں۔