غزہ کا المیہ اور وہاں کی المناک صورتحال اسرائیلی مظالم اور کھلی بدمعاشی کا نقشہ پیش کرنا ہے۔ واقفان حال اس بات کا کھوج لگا رہے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ پر اتنی شدید بمباری کیلئے یہ ایام ہی کیوں منتخب کئے آخر اسکے پیچھے کیا منظر اور کیا مقصد ہے؟ ایک طرف جب پہلے شام اور عراق میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے جس میں یقینی طور پر اسرائیل کے بڑے دشمن یعنی لبنان (حزب اللہ)‘ شام (بشارالاسد)‘ عراق اور ایران مصروف عمل ہیں اور اپنی دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں اسرائیل نے انکی مصروفیت کے وقت سے فائدہ اٹھا کر حماس کی طاقت کم کرنے اور فلسطینیوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ وقت کی ہم آہنگی ذہنی ہم آہن گی کے بعد ہی پیدا ہوئی ہے۔ اسرائیل اور داعش نے طے شدہ باہمی منصوبے کے تحت عراق اور فلسطین میں حملے شروع کئے ہیں تاکہ حماس اور حزب اللہ کو جنگ میں شامل کرنے کے جواز تراشے جا سکیں اور اگر ایسا ممکن ہو جائے تو عرب ممالک کو اس جنگ کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے اور یوں شام و عراق اور لبنان و فلسطین کی سیاسی‘ جغرافیائی اور حکومتی حیثیت میں تبدیلی لائی جائے۔ کیونکہ اسرائیل‘ عرب ممالک اور داعش جانتے ہیں کہ لبنان اور فلسطین کا مسئلہ حزب اللہ کی کمزوری ہے اور وہ اسکے دفاع کیلئے یقیناً میدان عمل آئیگی اگر ایسا ہوتا ہے تو حزب اللہ کی توجہ عراق اور شام کی طرف کم پڑ جائیگی اور اس طرح داعش اور شامی دہشت گرد گروہ اپنے اپنے ممالک میں تیزی اور آزادی کے ساتھ کارروائیاں کر کے اپنا قبضہ مضبوط اور طویل کرینگے۔اسرائیل کے بارے میں امریکہ کی اولاد ہونے کا تصور تو کئی دہائیوں سے قائم ہے اور اس تصور میں روز بروز تقویت آتی جا رہی ہے موجودہ دنوں میں امریکی سرپرستی کی نوعیت تبدیل ہوئی ہے اور امریکہ نے عرب ممالک کو اسرائیل کی غلامی کا مزید عادی بنا دیا ہے۔ حالانکہ اسرائیل کا ملت اسلامیہ کیلئے ناسور ہونا اظہر من الشمس ہے عرب ممالک کی حکومتوں کا معاملہ جدا ہے لیکن عرب عوام کی اکثریت اب بھی اسرائیل کو اپنا قاتل، اسلام کا دشمن اور ایک غاصب ریاست سمجھتی ہے۔ جیسا کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے بارے میں دوٹوک نظریہ اختیار فرمایا اور اسرائیل کو ایک غاصب راست قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطین عوام کے حق آزادی کو تسلیم کیا اسی نظریہ کو بعد میں پاکستان کی سرکاری اور خارجہ پالیسی کا مستقل حصہ بنایا گیا جو آج تک جاری ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان دنوں اسرائیل اور داعش کی کارروائیاں ایک ہی ایجنڈے اور منصوبے کا حصہ ہیں تاکہ امت مسلمہ کو مجموعی طور پر کمزور کر کے انکے اندر پیدا ہونے والی بیداری کو روکا جائے۔ ماضی قریب میں اسرائیل نے حزب اللہ کے ہاتھوں جو عبرت ناک شکست کھائی ہے ان دنوں اسرائیل اور داعش مل کر اس شکست کا بدلہ چکانا چاہتے ہیں اور حماس کو نشانہ بنا کر فلسطین کو روندنا چاہتے ہیں تاکہ غرب ممالک کو خوفزدہ کیا جائے اور عالم اسلام میں اسرائیل اور داعش کیخلاف پیدا ہو چکی نفرت کو خوف میں بدلا جائے لیکن ماضی کی طرح اب بھی اسرائیل کی بربریت کے باوجود فلسطینی مسلمانوں کا خون اپنی تاثیر چھوڑے گا اور معصوم بچوں ک جنازے اسرائیل اور داعش کے علاوہ انکے سرپرستوں کے جنازے میں آخری کیل ثابت ہونگے۔یوم القدس کا آغاز جن حالات کو دیکھ کر کیا گیا وہ حالات اب بھی موجود ہیں بلکہ ان میں شدت آتی جا رہی ہے قبلہ اول بیت المقدس اب تک اسرائیلی پنجوں میں قید ہے۔فلسطینی عوام کو ان کا حق آزادی ابھی تک نہیں ملا۔ امریکہ کی کھلی سرپرستی اسرائیل کو حاصل ہے۔ عرب ممالک کی بے حسی میں تیزی سے اضافہ ہو چکا ہے۔ حماس اور حزب اللہ کو کچلنے کے منصوبے اب بھی نئے نئے انداز سے عمل میں لائے جا رہے ہیں۔ غزہ کے محاصروں اور بمباری کا سلسلہ رکا نہیں تھما نہیں۔ موجودہ حالت اس بات کا شدت سے تقاضہ کرتے ہیں کہ اس سال یوم القدس کے پروگرام نہایت تزک و احتشام‘ اسلامی جذبے‘ وحدت و اخوت اور ملی بیداری کے ساتھ منعقد کئے جائیں۔ اسکے ساتھ اسلامی ممالک کے عوام کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یوم القدس منانے کے علاوہ اپنے حکمرانوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں جو نام نہاد مصلحتوں اور خودساختہ مفادات کی وجہ سے قبلہ اول اور فلسطینی عوام پر اسرائیلی قبضے جیسے بڑے گناہ اور جرم کیخلاف کھل کر صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے۔
غزہ… داعش… یوم القدس
Jul 25, 2014