زندگی سخت تلاطم میں گھری ہے اپنی!

جب طوفانی بارشوں نے ہمارے گھروں کا رخ کیا ¾جب سورج کی تپش میں موم کی طرح پگھلتے گلیشئر زسے پانی ابلنے لگا ¾ جب چترال سمیت پورا خیبر پی کے سیلابی ریلوں میں ڈبکیاں کھا رہا تھا ¾جب میانوالی سے رحیم یار خان تک سرائیکی بیلٹ کے دس اضلاع کے لاکھوں لوگ طغیانیوں میںاپناسب مال واسباب کھو کرموت کی جانب لڑھکتے لپکتے ”مدد ...مدد“ کی فریادیں کر رہے تھے ¾جب دریائے سندھ کی بپھرتی ¾ بل کھاتی بے رحم موجیں بربادی کے سندیسے لے کر وادی مہران کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں ¾عین اس وقت ہمارے ”میڈ ان پاکستان وزیر اعظم “ میاں نواز شریف اورلاہور کے راجہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کا پورا کنبہ دو چارٹرڈ طیاروں میں لدا پھندا زندگی کے مزے لوٹنے سعودی عرب روانہ ہورہا تھا ¾جہاں انہیں سرکار کے دربار میں اپنی بچی کا نکاح بڑی سادگی اور سعادت سے انجام دینا تھا۔ ملک میں محبوب خدا ﷺ کے محبوب بندے قدرتی آفت میں اپنی موت آپ مر رہے تھے ¾ ایسے میں ہمارے جمہوریت پرست حکمراں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں بیٹھے اپنی اپنی خود فریبیوں میں غرقاب تھے۔ قومی فرائض پر ذاتی ترجیحات نے ہمارے رہنماﺅں کوزمین اور زمین سے جڑے لوگوں سے الگ کرکے دور پٹک دیا ہے اور انہیں ہم سے اجنبی کردیا ہے۔
یہ دریا اتنے خود غرض نہیں کہ اچانک موت بن کر زندگی پر دھاوا بول دیں ¾یہ سیلاب اتنے سرکش نہیں ہیں کہ اچانک جیتی جاگتی زندگیوں پر چڑھ دوڑیں اور پلک جھپکتے ہی سب کچھ صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ ملک میں ادارے موجود ہیں ¾ان میں لوگ بھی موجود ہیں جو موسموں کی بے رخی کی پیشگی اطلاعات دے کرخلق خدا کو ممکنہ نقصانات سے بچا لیتے ہیں ۔ شرط صرف یہ ہے کہ ادارے جاگ رہے ہوں ¾ وہاں موجود لوگوں کی آنکھیں کھلی ہوں اور حکمرانوں کا ضمیر جاگ رہا ہو۔ سب کو خبر ہے کہ موسموں کا یہ تغیر ¾دریاﺅں کی یہ بد مستی غیر متوقع نہیں ہوتی۔ ہر دو سال بعد ملک میں سیلاب آتا ہے اور ہر پانچ سال بعد غیر معمولی سیلاب آتا ہے۔ جب سے دنیا کا درجہ حرارت شدت اختیار کررہا ہے ¾ موسمی تغیرات روایت بنتے جارہے ہیں ¾ موسموں کا اعتبار ختم ہو گیا ہے تو طوفانی بارشوں اور بے رحم سیلابی ریلوں نے زندگی تلپٹ کر دی ہے۔ خاص طور جنوبی پنجاب ہر سال ڈوبتا ہے ¾ خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف لانگ بوٹ چڑھا کر سیلاب زدہ لوگوںکوپرسہ اور دلاسہ دینے آتے ہیں ¾ وعدے کرتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں ۔ سال دو سال بعد دریاﺅں میں پھر پانی امڈتا ہے اور سرائیکی بیلٹ کے مظلوم ایک بار پھر میاں شہباز شریف کے لانگ بوٹوں تلے دب کر ¾ سسک سسک کر مرجاتے ہیں ۔ حکمرانوں کے ضمیر پھر بھی نہیں جاگتے اور وہ بے کسوں کے پاﺅں ایک بار پھر وعدوں کی ایک نئی زنجیرمیں جکڑ دیتے ہیں۔ ہزاروں افراد ان چند سالوں میں لقمہ اجل بن گئے ¾حکمران انسان کو انسان جتنی اوقات بھی دینے کو تیار نہیں۔ ان کی ساری توجہ کا مرکز وسطی پنجاب ہے۔ اس سال بھی سیلابی ریلوں کی زد میں آنے والے سارے علاقے وہی ہیں جہاں پچھلے آٹھ سالوں سے خادم اعلیٰ پنجاب دورے کرکے اصلاح احوال کی نویدیں سناتے رہے ¾ لوگ مرتے رہے ¾ بربادیاں ان کے گھروں میں بسیرا کر گئیں لیکن کبھی کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا اور کبھی کسی کوکچھ نہیں ملا۔کسی نے آواز اٹھائی تو اسے ملک دشمنی اور عصبیت کے طعنے دے کر شرمندہ کر دیا گیا۔ حکمرانوں کے جانبدارانہ رویوں سے جنوبی پنجاب میں احساس محرومی نکتہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔
سرائیکی زبان کے قادرالکلام شاعراور عوامی امنگوں کے ترجمان امان اللہ ارشد نے جنوبی پنجاب میںپیاس اور سیلاب کی سختیوں کو کیا خوب قلم بند کیا ہے ¾اس میں وسیب کا درد جھلکتا ہے۔ ذرا اس دوہڑے کو پڑھئے اور پیاس اور پانی کی موت مرنے والوں کے بارے میں دردمندی سے سوچئے ۔ یہ تعصب نہیں ¾ انصاف کا تقاضا ہے ¾ایک ہی صوبے میں رہنے والوں سے امتیازی سلوک کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے ¾اب بھی اگر ظلم وستم روا رکھا گیا توان خاک نشینوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے:
میڈی روہی سُنج ¾تیڈا بیلا بر
ایں سال تباہیں پھیہہ مارئیے
ہر جھوک تباہ ¾ویران ہنباہ
اینویں لگدے پھیرا دیہہ مارئیے
ودے بے گھر تھی تے رُلدے ہیں
¾ ساکوں وقت دی گردش دریہہ مارئیے
ڈونہیں مویوں ارشد پانی توں ¾
تیکوں چھل مارئیے میکوں تریہہ مارئیے
(ترجمہ:میرا ریگستان پیاسا ¾تیرادریا کنارہ برباد ¾اس سال تباہیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہر آشیانہ تباہ ہر چوپال برباد ¾ ایسے لگتا ہے کہ دیو نے سب کچھ ملیا میٹ کردیا ہے۔ہم بے گھر ہو کر دردر بھٹک رہے ہیں ¾ ہمیں وقت کی گردش نے کہیں کا نہیں رکھا۔ ارشد ! ہم دونوں پانی کی وجہ سے موت کے گھاٹ اترے ہیں ¾تجھے سیلاب کا پانی لے ڈوبا اور میری موت کا سبب میری پیاس بن گئی۔)ان دو شعروں میں پیش کئے گئے دونوں منظرجنوبی پنجاب کے ہیں ¾ایک ریگستانی علاقے کا اور دوسرا دریائی علاقے کا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...