صحافت صرف ایک پیشہ ہی نہیں ایک مقدس مشن بھی ہے کہ صحافت اور صحیفہ کا ماخذ ایک ہی ہے۔ صحیفہ آسمانی ہدایت پر مشتمل ہوتا ہے جس کا مقصد حقیقت سے آگاہی، رہنمائی، تربیت اور اصلاح ہے۔ صحافت بھی انہی مقاصد کے حصول کا نہایت اہم اور موثر ذریعہ ہے۔ صحافت تحریرو بیان کے ذریعے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنے، مبنی بر انصاف تجزیہ کرنے اور معاشرہ کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں صحافت ان اعلیٰ مقاصد سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے اکثر ٹی وی چینلز اور اخبارات صرف ایک بزنس کا روپ دھار چکے ہیں۔ انکے ہاں سنسنی خیزی، مسابقت اور انٹرٹینمنٹ ہی اصل مقصد اور مطمع نظر بن چکا ہے۔ پاکستان کے اندر با مقصد اور سنجیدہ صحافت دم توڑ رہی ہے۔ شتر بے مہار کا مہاورہ ہماری صحافت پر صادق آتا ہے۔ اس کے برعکس بی بی سی، سی این این، الجزیرہ ٹی وی اور دیگر انٹرنیشنل نیوز چینلز کا اپنا ایک معیار ہے۔ انکے ہاں غیر سنجیدگی کا گزر نہیں ہمیں سنجیدہ صحافت وہاں ہی نظر آتی ہے۔ ان چینلز میں پیش کی جانے والی رپورٹس، ڈاکومینٹریز، اور پیکچز مکمل تحقیق کے بعد حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔ جس کے جھوٹا ہونے پر چینل کو اپنی گرفت کا بھی خوف ہوتا ہے۔ ان میں تمام ڈیٹا ریسرچ کے پیمانوں پر ناپنے اور تولنے کے بعد تیار کیا جاتا ہے ۔ ان رپورٹس کو پبلش بھی کیا جاتا ہے۔ ریسرچ سکالرز کیلئے یہ رپورٹس قابل اعتماد ہوتی ہیں۔ انکے ہاں خبروں کو پیش کرنے کا انداز بھی انتہائی سادہ ہوتا ہے ، کوئی سنسنی خیزی نہیں ہوتی۔ اسکے برعکس ہمارے ہاں خبروں کی ہیڈ لائینز کو اس انداز میں پیش کیا جانے لگا ہے کہ خبر کم اور شاعری زیادہ محسوس ہوتی ہے یعنی قافیہ اور ردیف کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بیک گراونڈ میوزک میں ہندی گانے شامل کیے جاتے ہیں۔بعض اوقات وہ پیکج کسی ہندی فلم کا ٹریلر محسوس ہونے لگتا ہے۔مجرم جیل میں جا رہا ہے تو اسکے پیچھے میں ہوں ڈان کا گانا چلا دیا جاتا ہے یعنی آپ مجرم کو ہیرو بنا دیتے ہیں۔وہ نفرت جو مجرم یا جرم سے پیدا ہونی چاہیے اس کو انٹرٹینمنٹ اور انجوائے مینٹ میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ مسابقت اور ریٹنگ کے چکر میں تصدیق کیے بغیر بریکنگ نیوز کا ایک طوفان ہے جو تھمنے میں نہیں آتا۔ جن میں سے بعض خبریں صداقت کے معیار پر پوری نہیں ا±ترتیں۔ ایسی خبریں بڑی نمایاں طور پر شائع اور نشر ہوتی ہیں، جبکہ ان کی ترد یدغیر نمایاں اور غیر اہم انداز میں کی جاتی ہے جس سے متاثرہ شخصیت یا ادارہ کے ساتھ ذیادتی کی تلافی نہیں ہوتی۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا کردار ایک اور پہلو سے بھی قابل توجہ ہے کہ تنویر زمانی جیسی شخصیات جن کا ملک و قوم کی تعمیر اور فلاح وبہبود میں کوئی کردار نہیں ہوتا اور نہ ہی قومی یا بین الاقوامی سطح پر قابل قدر کارنامہ ہوتا ہے انکے انٹرویوز میں تمام چینلز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں غلطاں رہتے ہیں۔ اسکے بر عکس تعلیمی، دینی اور سماجی میدانوں میں نمایاں خدمات سر انجام دینے والوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کیلئے میڈیا کے ہاں چند منٹ نکالنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک وقت تھاکہ ہمارے پی ٹی وی کی خبروں کا انداز بہت سادہ تھاا سی وجہ سے یہ عوام میں مقبول تھا۔ صحافت ایک معلم کا کردار بھی ادا کرتی ہے، قوم کے مزاج اور اخلاق کی تشکیل میں اسکا بڑا موثر کردار ہوسکتا ہے لیکن افسوس یہ کردار ادا کرنے میں ہمارا میڈیا ناکام نظر آتا ہے۔ اب عوام کا مزاج بگاڑنے میں میڈیا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارے ہاں کے ٹاک شوز ناظرین کے علم میں اتنا اضافہ نہیں کرتے جتنا ان ٹاک شوز میں حصہ لینے والے مختلف جماعتوں کے نمائندوں کی عدم برداشت اور بد کلامی سے عوامی اخلاق پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان ٹاک شوز کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ غیر شائستہ، تہذیب اور اخلاق سے گری ہوئی گفتگو کرنےوالے سپوکس مین ہمارے میڈیا کے ہاں زیادہ منظور نظر ہوتے ہیں۔ انھیں باہم دست گریبان دیکھ کر اینکر پرسن مسکراتے اور خوب محظوظ ہوتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ پیغمبر اسلام سرور دو عالم نے عمر، سٹیٹس، علم اور مرتبہ میں بڑے کی توقیر کا حکم دیا ہے۔ حضور نے یہ بھی حکم دیا کہ جو بڑے کی توقیر نہیں کرتا وہ میری امت میںسے نہیں ہے۔ قرآن کریم کی سورہ الحجرات میں دوسروں کا مذاق اڑانے سے سختی سے منع کر دیا گیا فرمایا: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ ان (تمسخرکرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیںہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہ عورتیں ان (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظا لم ہیں۔ بڑے دکھ کی بات ہے قرآن کریم کی واضح ہدایات کے باوجود ہمارا میڈیا اپنی من مانیوں میں مگن ہے۔ جہاں دلیل اور منطق کیساتھ دوسرے کو لاجواب کیا جا سکتا ہے وہاں وہ تحقیرو تذلیل کے اور تمسخر کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ سراسر غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ آپ کو ان حکمرانوں کے کسی کام سے اختلاف ہے کسی عالم سے کوئی علمی اختلاف ہے تو اس کو دلائل اور منطق سے رد کریں۔ تذلیل کوئی دلیل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں۔ پیمرا ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کرے جس میں مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کا تمسخر ا±ڑانے پر پابندی لگائی جائے اور صحافت کے مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے اقدامات ا±ٹھائے۔ ٹی وی چینلز کو بھی ریٹنگ اور مسابقت کی دوڑ سے نکل کر سنجیدہ اور با مقصد صحافت کو اپنانا چاہیے۔ صحافیوں کو بھی اپنے تجزیات اپنی ذاتی وابستگیوں اور فطری رجحان اور میلان سے نکل کر انصاف کے ترازو میں رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔