اس تحریک کے دوران دھاندلی دھاندلی کا ایسا شور اٹھا کہ کوئی معقول آواز سنائی نہ دیتی تھی یہ ایک سیاسی تحریک تھی مگر افسوس کے اس کا رخ موڑ دیا گیا۔ تحریک کا رخ کیا مڑا کہ تاریخ کا رخ مڑ گیا۔ اس دھاندلی کے خلاف قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ بائیکاٹ اتنا متحد اور مضبوط تھا کہ پورے ملک کے چاروں صوبوں میں اتحاد کا غالباً ایک بھی صوبائی امیدوار نہ تھا۔ آزاد امیدوار تو آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے۔ پیپلز پارٹی کے تمام صوبائی امیدوار اس بائیکاٹ کے سبب اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی کا افتتاحی اجلاس 9 اپریل 77ءکو طلب کر لیا گیا۔ اس موقع پر قومی اتحاد کے رہنما¶ں نے اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اس کے گھیرا¶ کا اعلان کر دیا اتحاد کے اکثر رہنما جیلوں میں بند تھے نوابزادہ نصراللہ خاں چونکہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے تھے اس گھیرا¶ کی قیادت انہوں نے کی۔ پورے پنجاب کی پولیس کو لاہور طلب کر لیا گیا پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کو تو بحفاظت ہال میں پہنچا دیا گیا۔ مگر ہال سے باہر کا حال بڑا غضب ناک تھا۔ چونکہ جلوس میںخواتین کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی لہٰذا ان سے نمٹنے کیلئے خواتین پولیس کے جو دستے تعینات کئے گئے‘ انہیں اتحاد کی قیادت نے ”نتھ فورس“ کا نام دیا۔ یعنی وہ دستے پولیس فورس کے نہیں بازارحسن کی عورتیں تھیں جنہیں عارضی طورپر وردیاں پہنا کر مسلح کیا گیا تھا کہ خواتین کے جلوس کو منتشر کر سکیں۔ مال روڈ پر انسانوں کے ہجوم کے ہجوم در آئے۔ احتجاج کا ایک ایسا سیلاب تھا جسے کوئی نہ روک سکتا تھا۔ ”نتھ فورس“ پر لوگ غالب آگئے۔ موسلادھار بارش کی طرح لاٹھی چارج ہوا۔ سر پھٹے‘ ٹانگیں ٹوٹیں‘ کندھے اتر گئے‘ ہمارے ساتھی سعید آسی کو بھی زبردست تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ لوگ لہولہان تھے کہ اچانک ایک طرف سے نوابزادہ نصراللہ خان بھی جلوس کی قیاد ت کر رہے تھے۔ عوام کے کندھوں پر براجمان اسمبلی کی طرف رواں دواں ہوئے۔ شام تک بپھرا ہوا ہجوم ذرا تھم گیا۔ پیپلزپارٹی احتجاجی محاذ پسپا ہو چکی تھی۔ ایسے میں جب اسے کسی سیاسی اور اخلاقی قوت کی ضرورت تھی کہ ممبر صوبائی اسمبلی چودھری اعتزاز احسن نے ایک پریس کانفرنس میں نہ صرف صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ”شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ“ ”الزامات سے بھرپور“ ایسی فلم چلائی کہ وہ سیاسی و اخلاقی قوت جس کی چودھری صاحب کی پارٹی کو ضرورت تھی وہ ”قومی اتحاد“ کے نصیب میں آگئی اور یوں چودھری اعتزازاحسن مستعفی ہوکر واپس چلے گئے۔
جب ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو چودھری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے مارشل لاءکا خیرمقدم کرنے کی بجائے اس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ملک میں ہر طرف فوج اور خوف کا راج تھا۔ جماعت اسلامی اور دیگر پیشوا حکومت کے دست و بازو تھے۔ مولانا ادریس کاندھلویؒ صاحب مرحوم کا بیان بھی سامنے آگیا کہ ”پہلا مارشل لاءحضرت ابوبکر صدیقؓ نے لگایا تھا“ گویا ان کے نزدیک حکومتی عملداری (رٹ آف گورنمنٹ) مارشل لاءکا ہی دوسرا نام تھا۔ اس ماحول میں سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارنا بڑا آسان ہو گیا۔ زندانوں کے دروازے کھل گئے۔ سیاسی کارکنوں‘ وکلاءاور صحافیوں کو ٹکٹکیوں پر باندھ کر انکے خون اور گوشت کا تماشا دیکھا گیا۔ یہاں بھی ضیاءالحق نے ایک تمیز قائم کر دی۔ شاہی قلعے‘ وارث روڈ اور چونامنڈی کے قصائی خانوں میں تفتیش کے علاوہ کوڑے صرف پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو مارے جاتے۔ MRD میں شامل دیگر جماعتوں کو کوڑوں کی چھوٹ تھی۔ جیل خانوں میں ان کی تعداد البتہ پیپلزپارٹی سے زیادہ رہی۔ گرفتاریاں بھی انہوں نے زیادہ دیں۔ اس ماحول کا شاید چودھری صاحب کو اندازہ تھا اسی لئے انہوں نے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کرلی۔ چاہتے تو پیپلزپارٹی واپس جا کر سجدہ سہو کر سکتے تھے مگر پیپلزپارٹی میں جانا خطرے سے خالی نہ تھا اسی لئے فیصلہ بدل لیا۔
1985ءکے موسم گرما میں لندن میں تھا۔ ایک دن ہیتھرو ایئرپورٹ پر ایک دوست کے ساتھ جانا ہوا تو چودھری اعتزاز کو ایئرپورٹ سے باہر نکلتے دیکھا۔ ان سے علیک سلیک ہوئی۔ معلوم ہوا کہ وہ تحریک استقلال گجرات کے رہنما میر بشیر کے گھر قیام پذیر ہونگے۔ اگلے روز میر صاحب کا فون نمبر تلاش کرکے ان کے گھر پہنچا تو چودھری صاحب جلدی جلدی تیار ہوکر اہم کام کے سلسلے میں جا رہے تھے۔ پوچھنے پر منزل کا اتہ پتہ نہ دیا۔ شاید اس لئے کہ وہ محترمہ بینظیر بھٹو سے ملنے جا رہے تھے اور میں تحریک استقلال پنجاب کا جنرل سیکرٹری تھا۔ انہیں اندیشہ تھاکہ کہیں یہ ملاقات ایئر مارشل اصغر خان کے علم میں نہ آجائے‘ تاہم بینظیر بھٹو کی وطن واپسی اور 1988ءکے انتخابات تک چودھری صاحب تحریک استقلال سے وابستہ رہے۔
چودھری اعتزاز احسن وڑائچ جنرل پرویز مشرف کےخلاف ”عدلیہ بحالی“ کی تحریک میں پھر نمایاں ہوئے۔ ”رستم مانٹی کارلو“ رانا ارسلان کے والد جسٹس رانا افتخار چودھری کے ڈرائیور بن کر ”دنیا کی تاریخ میں لوگو کب کوئی منصف پیدا ہوا ہے۔“ ”عدل بنا جمہور نہ ہوگا اور ریاست ہوگی۔ ماں کے جیسی“ جیسے نعروں سے وکلاءکو گرمایا اور پھر ان کو بے منزل چھوڑ دیا۔ نوازشریف کے ساتھ مل کر ایک عدد نہ ہونے والے دھرنے کے آئینی احتجاج کی کمائی نوازشریف کی جھولی میں ڈال کر واپس چلے گئے۔
حیران ہوں کہ وہ اعتزاز احسن جس نے ذوالفقار علی بھٹو جیسی نابالغہ روزگار قیادت کو عوام دشمن قرار دیکر پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دیدیا تھا‘ آج وہ آصف علی زرداری جیسے حقیقی عوام دشمن کے سامنے لب کشائی کی ہمت بھی نہیں کر سکتا۔ ملک بھر کے وکلاءکے آزاد عدلیہ کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ ان کی امیدوں کو ایسے جلا دیا جیسے LPG (ایل پی جی) گیس حارث سٹیل مل کا شعلہ بن کر لوہے کو پگھلا دیتی ہے۔(ختم شد)