بیجنگ (آئی این پی) ڈرون حملوں کی پالیسی نے انسانی حقوق کے بارے میں امریکہ کی منافقت اور دوہرے کردار کو واضح کردیا ہے ،اوباما انتظامیہ صرف اپنے فوجیوں کی کم سے کم اموات کا خیال رکھتی ہے لیکن اس نے ڈرون ٹیکنالوجی سے دوسرے ملکوں میں متاثر ہونیوالے شہریوں کے جانی و مالی نقصان سے اپنی آنکھیں اور کان بند کررکھے ہیں، چین، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے حالیہ ڈرون حملوں کی شدید مذمت کرتا ہے ۔ یہ بات چینی میڈیا نے اپنی تازہ ترین اشاعتوں میں امریکہ بارے تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہے۔ چینی میڈیا نے وائٹ ہائوس کی طرف سے حال ہی میں جاری ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ 2009ء سے 2015ء تک افغانستان اور پاکستان میں 473ڈرون حملوں کے دوران 100سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ، یہ وہ علاقے ہیں جہاں امریکہ کوئی جنگ نہیں لڑ رہا۔ تاہم انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔لندن میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کے تحقیقاتی بیور و کے مطابق امریکہ نے صرف 2004ء میں پاکستان میں 424ڈرون حملے کئے جن میں 200بچوں سمیت 966شہری ہلاک ہوئے جبکہ ایک اور اندازے کے مطابق 2002ء سے 2004ء تک پاکستان اور دیگر ممالک میں ان حملوں کے نتیجے میں 1100شہری ہلاک ہوئے ، ڈرون پالیسی جس کی وجہ سے سینکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے امریکی صدر باراک اوباما کی پیشانی پر ایسا بد نما داغ ہے جو کبھی مٹ نہیں سکے گا ۔چینی میڈیا کا کہنا ہے کہ جب سے امریکی فوجیوں کو مہلک ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت ملی ہے اس وقت سے دنیا بھر میں اس بیہمانہ قتل عام اور معصوم شہریوں کی ہلاکت کے خلاف امریکہ پر تنقید بڑھتی جارہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کارروائیوں کیخلاف نگرانی کا موثر اور شفاف نظام موجود نہیں ہے۔علاوہ ازیںکئی دفعہ امریکی فوجیوں نے جلد بازی میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فروری 2002ء میں افغانستان کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی پر حملہ کیا جہاں تین افراد مارے گئے اور بہانہ بنایا کہ جس آدمی کو ٹارگٹ کیا گیا اس کا قد بن لادن کی طرح تھا ۔ ذرائع ابلاغ کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ امریکی ہائی کمان یہ دلائل دیتی ہے کہ ڈرون حملے اسی وقت کئے جاتے ہیں جب مطلوب افراد زمینی کارروائیوں کے دوران نہیں مارے جاتے جبکہ دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی فوجی کمان ڈرون کو کسی وقت بھی کسی ثبوت کے بغیر بھی حملے کا حکم دے سکتی ہے خواہ وہ شخص خطرناک نہ ہو ۔ ایک امریکی ماہر پال کیویکا مارٹن کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں 2300سے 3300افراد مارے گئے اور اب ہم کسی قانونی دلیل کے بغیر خود ہی مدعی ، خود ہی جج اور خود ہی وکیل بن گئے ہیں،سابق سٹاف سارجنٹ بریڈن برائنٹ جو 2007ء سے 2011ء تک امریکی ایئر فورس میں ڈرون آپریٹ کرتے رہے ہیں نے کہا ہے کہ ڈرون کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں سے دہشتگردی میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا کیونکہ جب ہم چار دہشتگرد ہلاک کرتے ہیں تو اسی وقت دس مزید پیدا ہو جاتے ہیں۔