وادی کشمیر جسے صدیوں سے جنت نظیر کہا جاتا ہے اس کی حسین بل کھاتی گھاٹیاں بلندوبالا پہاڑ اور بہتے جھرنے اور دلفریب نظارے تھے جسے دیکھنے کے لئے دنیا کے کونے کونے سے سیاح امڈتے چلے آتے تھے ۔ یہاں کے بسنے والوں میں اکثریت مسلم آبادیوں پر مشتمل تھی مگر ریاست پر ڈوگرا راج قائم تھا ۔1931سے شروع ہونے والی آزادی کی تحریک آج ستر اسی سال بعد بھی جاری و ساری ہے ۔ وادی کشمیر 1947ء کو برطانوی تقسیم ہند کے فارمولے کا نامکمل حصہ ہے ۔ نقشے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے تمام قدرتی راستے ، ڈھلوانیں اور بہتے دریائوں کا رخ پاکستان کی جانب ہے ۔ شاید اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بانی پاکستان نے کشمیر کو شہ رگ پاکستان قرار دیا اور پاکستان کا نام تخلیق کرنے والوں نے ک کا حرف کشمیر سے لیا ۔ اسی اہمیت کے تحت بے سروسامانی کے حالات میں حضرت قائداعظم نے پہلے پاکستانی فوج کو وہاں داخل ہونے کا حکم دیا ۔ جب انگریز کمانڈر چیف نے آپ کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا تو مجاہدین کو شہ رگ پاکستان ہندو کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے بھیجا گیا ۔آج کا آزاد کشمیر انہی مجاہدین کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ۔ کشمیریوں نے اسے آزادی کا بیس کیمپ قرار دیا تاکہ مقبوضہ وادی میں بسنے والوں کی سیاسی اخلاقی اور قانونی مدد کی جا سکے ۔ کشمیر میں استصواب رائے کی قرار داد اقوام متحدہ میں بھارت نے پیش کی بعد میں اسے لیت و لعل کے ذریعے ٹالا جاتا رہا ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے مسلم قیادت کو سازش کے ذریعے تقسیم کر دیا۔ اقتدار پرست مسلم قیادت نے جعلی انتخابات کے ذریعے تحریک حریت کو کمزور کرتے رہے ۔ مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت کے درمیان 1948ء ،1965 کی جنگیں اور 1999ء میں کارگل کی معرکہ آرائی تاریخ کا حصہ ہے ۔
تقریبا پچیس سال قبل تحریک حریت میں نئی لہر نے جنم لیا ۔ ہر قصبہ اور ہر شہر میں کشمیر یوں کے جم غفیر نظر آنے لگے ۔ بہادری اور شہادتوں کی ہزار داستانیں رقم ہونے لگیں ۔ بھارت نے سات لاکھ فوج جھونک کر وادی کشمیر کو جیل میں بدل دیا ۔ ہر خا ص عام کشمیریوں کی تذلیل فوجی درندوں کے ہاتھوں خواتین کی بے حرمتی ، آبرو ریزیاں اور پرتشدد رویہ روز کا کھیل بن گیا ۔ کسی کی جان محفوظ ہے نہ چادر اور چار دیواری کا تقدس جس کے رد عمل میں ہر ہوش پکڑتا کشمیری بچہ نفرت کا انگارہ اور حریت کا استعارہ بنتا چلا گیا ۔ انہیں میں سے ایک نام برہان وانی ہے جو ایک ہونہار طالب علم تھاجسے اپنی وادی اور اسلاف سے محبت بھی تھی اور ان کے کارناموں پر فخر بھی محسوس کرتا تھا ۔ برہان وانی کا کم عمری میں ہی بھارتی فوج سے پالا پڑگیا ۔ فوجیوں نے برہان سمیت چند نوجوانوں کو بلا وجہ روکا ۔ پہلے اپنے کسی کام سے موٹر سائیکل پر بھیجا پھر ان کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جس نے جلتی پر تیل کا کام دکھایا ۔اس کے بعد برہان وانی باقاعدہ طور پر حریت کشمیر کا پرچم بردار بن گیا ۔ اس نے مقبوضہ وادی میں سوشل میڈیا پر تہلکہ مچادیا اور کشمیری نوجوانوںمیں آزادی کی نئی روح پھونک دی ۔اسی دوران بھارتی افواج نے برہان کے بڑے بھائی خالد وانی کو شدید ٹارچر کے بعد شہید کر ڈالا تو برہان وانی غصے سے بے قابو ہوکر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھارتی افواج کے خلاف عسکری لام بندی کی ویڈیو اپ لوڈ کی جس کے رد عمل میں بھارتی حکمران اس کی جان لینے پر اتر آئے ۔ ماورائے عدالت برہان وانی کو قتل کرنے کا وہ دن منتخب کیا جس روز دنیا میں حضرت ایدھی کی وفات پر ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا ۔ برہان وانی کے قتل کے خلاف وادی کشمیر احتجاج کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئی ۔ حریت کانفرنس کی قیادت کو نظر بند کر دیا گیا اور برہان وانی کے جنازے میں شریک مظاہرین پر فوجی فائرنگ اورتشدد کے نتیجے میں اڑھائی ہزار کے قریب لوگ ہسپتالوں میں آج بھی موجود ہیں جن میں سے تقریبا ڈیڑھ سو آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں ۔
جنہیں خصوصی طور پر اسرائیل سے منگوائی گئی پیلٹ گنوں سے شکار کیا گیا ۔ پونچھ منڈی سے قریب کپواڑہ کے علاقے میں فائبر کیبل بچھانے کا کام جاری تھا جو بند کر دیا گیا اور اس پر کام کرنے والے 130 مزدور لا پتہ ہیں جن کے ورثاء تھانوں اور مختلف ہسپتالوں میں اپنے عزیزوں کی تلاش میں دھکے کھارہے ہیں ۔ کئی دن سے وادی میں کرفیو مسلط ہے جس سے اشیاء خوردونوش اور ادویات نایاب ہیں ۔ اخبارات پر پابندی ، انٹر نیٹ اورٹیلی فون نیٹ منجمد کر دیا گیا ۔اکیسویں صدی کے گلوبل ویلج سے کشمیر کو بالکل کاٹ ڈالا ۔ ایسے میں پاکستان کے ہر شہر میں 19جولائی کو الحاق کشمیر اور 20جولائی کو یوم سیاہ منایا گیا مگر اقوام عالم کی سرد مہری اور بے حسی دیدنی ہے ۔سارک تنظیم نے اگر فوری نوٹس نہ لیا تو مقبوضہ کشمیر کے ساٹھ لاکھ نوجوان سردھڑ کی بازی لگانے کے لئے بیتاب دکھائی دیتے ہیں ۔ان کی نفرت کے شعلے گردو نواح کے بے حس حکمرانوں کو بھی جلا جھلسا کر راکھ کر سکتے ہیں۔
؎