پاکستان میں بے ضابطگی، بدعنوانی، چور بازاری اور لوٹ مار کے الزامات بھی لگتے رہتے ہیں اور الزامات لگنے کے بعد مقدمات بھی بنتے رہتے ہیں، لیکن مقدمات بننے کے باوجود آج تک کسی ’’اصل‘‘ مجرم کو سزا نہیں مل سکی، جس کی ایک وجہ تو غالبا یہ ہے کہ یہ جدی پشتی چور اپنے پیچھے اپنی چوری کا کوئی ’’کھرا‘‘ نہیں چھوڑتے، اور جہاں جہاں کسی چوری کا کھرا ملتا ہے تو وہاں وہاں اِن سکہ بند چوروں نے ہاتھ کی صفائی دکھاکر قانون کی کتابوں میں اپنی اِس واردات کو ’’چوری‘‘ ہی نہیں رہنے دیا۔ چوری کی ایسی ہی وارداتوں میں اربوں روپے کے قرضے لے کر کاروبار دیوالیہ ہونے کے نام پر قرضوں کی معافی کی چوری بھی ہے۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ قرضے معاف کرانے کے بعد یہ لوگ کسی ناں کسی طریقے سے دوبارہ قوم کے سرپر سوار ہونے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تاکہ اپنی چوری کے ’’کاروبار‘‘ کو وسعت دے سکیں۔ قرضوں کی معافی کی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی چوری کی تفصیلات پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ میں پیش کی گئی جو دلوں کو دہلادینے کیلئے کافی ہے۔ ان تفصیلات کے مطابق پاکستان میں گزشتہ25 برسوں میں 432ارب روپے کے لگ بھگ قرضے معاف کرائے گئے جبکہ گزشتہ تین برسوں میں 280 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ قرضے معاف کرانے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں سیاستدان، فوجی افسران، بیوروکریٹس اورصنعتکار بھی شامل ہیں۔ سینیٹ میں پیش کی جانے والی دستاویز کے مطابق سال 1991 سے 2000 کے دوران 20 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کرائے گئے ۔ دور کیوں جائیے کہ ابھی سال 2015ء میں ایک نجی کمپنی عبداللہ اپیریلز پرائیویٹ لمیٹڈ نے 154 ارب روپے کا قرض معاف کرایا۔ ریکسنز انجینئرز نے 53 ارب روپے سے زائد کا قرض معاف کرایا۔دستاویز کے مطابق سال 2002 میں 5کروڑ روپے سے زائد کا قرضہ معاف کرانے والی صادق آباد ٹیکسٹائل ملز کے ڈائریکٹرز میں شیریں مزاری کا نام بھی شامل ہے، احتساب احتساب کا ورد کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی تاندلیانوالہ شوگر ملزنے 2005 میں 10 کروڑ روپے سے زائد کا قرض معاف کرایا۔انڈس اسٹیل پائپ نے 2013 میں 12 کروڑروپے سے زائد کا قرض معاف کرایا، جس کے ڈائریکٹرز میں وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کا نام بھی شامل ہے۔مہران بینک اسکینڈل میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے سے شہرت پانے والی شخصیت یونس حبیب کا نام بھی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے سال 1997 میں 2 ارب 47 کروڑ روپے سے زائد کا قرض معاف کرایا۔
اب کون نہیں جانتا کہ بینکوں کے قرضے کس طرح ملی بھگت اور فراڈ سے معاف کرائے جاتے ہیں، اس طرح یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا بینکنگ فراڈ بنتا ہے۔ سینٹ میں پیش کی گئی قرضہ معافی کی فہرست بھی دراصل کرپشن کی دیگ کے وہ چند دانے ہیں،جن کی مالیت کم از کم پانچ کروڑ روپے سے زیادہ ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر پانچ کروڑ روپے یا پانچ کروڑ روپے سے کم مالیت والے معاف شدہ قرضہ جات کی فہرست بھی تیار کرلی جائے تو معاف کی اور کرائی جانے والی رقم کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے بھی کہیں زیادہ کی ہوسکتی ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اِس فہرست پر بھی تھوڑی بہت تحقیق کرلی جائے تو قرضہ معاف کرانے والوں کی اکثریت پارلیمنٹ میں موجود اُن سیاسی جماعتوں کی حامی نکلے جو سب کے احتساب کی بات آتے ہی ہتھے سے اُکھڑ جاتی ہیں اور صرف وزیراعظم نواز شریف کے احتساب کا واویلا مچانا شروع کردیتی ہیں۔ اِس فہرست کی مدد سے اِن سیاسی جماعتوں کے واویلا مچانے کی اصل ’’وجہ‘‘ بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔یہ لوگ جانتے ہیں کہ اگر ملک میں ٹارگٹڈ احتساب کا شور مچاکر صرف وزیراعظم نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ نہ کیا گیا تو احتساب کا ایسا طوفان اُٹھے گا، جس میں یہ سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ یہی خوف اِن لوگوں کو حبس کے موسم میں بھی کہیں ٹکنے نہیں دے رہا اور یہ لوگ بے چین ہوکر کبھی مٹھائیاں بانٹنے کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی ہر روز حکومت کے آخری دن ہونے کا راگ الاپتے الاپتے سوجاتے ہیں، لیکن یہ لوگ بھی کیا کریں کہ قرضہ معافی کی یہ فہرست اِنہیں خوابوں میں بھی ڈراتی ہے اور یقینا اُس وقت تک ڈراتی رہے گی جب تک یہ معاملہ کسی کنارے نہیں لگ جاتا۔
ایسے لوگوں کو ایک خوف یہ بھی ہے کہ ’’صرف ایک شخص کے احتساب‘‘ کی دُکیوں اور تکیوں کے مقابلے میں ’’سب کے احتساب‘‘ کا ’’اِکا‘‘ وزیراعظم نواز شریف کے پاس ہے۔ سینٹ میں پیش کردہ فہرست کے ذریعے اِس اِکے کی ہلکی سی ایک جھلک دکھانے کے باوجود اِس معاملے میں حکومت نے ابھی تک اپنے پتے پوری طرح ’’شو‘‘ نہیں کیے۔ ترپ کا پتہ تو حکومت نے بہت ہی سنبھال کر رکھا ہوا ہے اور کسی کو اِس کی ہوا تک بھی نہیں لگنے دی۔ ترپ کا یہ پتہ ساری کی ساری بازی پلٹنے کی اہلیت اور طاقت رکھتا ہے۔ اپوزیشن کی یہ خام خیالی ہے کہ اُن کی دُکیوں اور تکیوں کے مقابلے میں وزیراعظم اپنا ترپ کا یہ پتہ چل کر اُسے ضائع کردیں گے۔ ایک ’’تازہ دل‘‘ وزیراعظم کو اپنے جال میں پھنسانا اپوزیشن کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوگا کیونکہ ترپ کا یہ پتہ تو وزیراعظم نے 2014ء کے ہلاکت خیز دھرنوں کے دوران بھی نہیں چلا تھا، اب تو وزیراعظم کا اپنا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بے مثال کامیابی نے ان کا ’’دل‘‘ خوش کردیا ہے، ایسے میں اُن سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی ہر بال پر چوکا چھکا لگانے کی کوشش کریں گے اور سلپ میں کیچ دے بیٹھیں گے؟
قارئین کرام!!احتساب صرف وزیراعظم نواز شریف کا ہونا چاہیے یا 432 ارب روپے کے قرضے ہڑپ کرکے ڈکار تک نہ لینے والوں کو بھی احتساب کے شکنجے میں کساجانا چاہیے، اِس سوال کا جواب عمران خان کو اپنے دل سے پوچھنا چاہیے؟ کٹہرے میں صرف ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو لایا جانا چاہیے، یا بے سروپا دھرنوں سے ملک و قوم کانقصان کرنے والوں سے بھی کوئی پوچھ گچھ ہونی چاہیے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر طاہرالقادری کو اپنے دل سے پوچھنا چاہیے؟ اپوزیشن کو ان حالات میں سڑکوں پر آکر اودھم مچانا چاہیے، یا اپنی اپنی حکومت والے صوبوں میں اپنی کارکردگی بہتر اور مسائل حل کرکے 2018ء کے انتخابات میں اپنا مقدمہ عوام کی عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہیے؟ اپوزیشن کو اس سوال کا جواب اپنے دل سے پوچھنا چاہیے؟دل سے پوچھے گئے سوال کا غلط جواب نہیں ملے گاکیونکہ دل غلط نہیں کہتا!دل کو آزماکر تو دیکھیں!
دل کو آزماکر تو دیکھیں!
Jul 25, 2016