پاکستان اسوقت انتہائی پر آشوب دور سے گزر رہا ہے۔ اسوقت بھارتی جارحیت عروج پر ہے ۔ پاکستان میں پانامہ ہنگامہ اور حکومت کی رخصتی کی تیاری جس میں وزیر اعظم کی نا اہلی کے معاملات شامل ہیں عروج پر ہیں ۔ پاکستان کے سیاست داں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور پاکستان کے اداروں کے بارے میں گفتگو اور سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بے لاگ تبصروں میں مصروف ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بھارت پاکستان میں شورش چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے بلوچستان اور کراچی اسکا خاص ہد ف ہیں۔ گزشتہ روز حیدرآباد کی جامشورو یونیورسٹی سے حیدر آباد پریس کلب تک پاکستان مخالف نعرے اور سندھو دیش کی حمایت میں ریلی نکالی گئی ۔ جس میں جسقم اور انکے حامی افراد تھے۔ پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت میں بھی کراچی میں جئے سندھ نے سندھودیش کی حمایت میں بڑا اجتماع کیا تھا۔ صرف ایم کیو ایم کی نفرت میں جبکہ لوکل گورنمنٹ سسٹم ختم کرکے نیا بلدیاتی قانون بنایا گیا تھاسندھی قوم پرستوں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔یہ پہلو غور طلب ہے کہ آخر پاکستان دشمنوں کو پہلے بھی اور گزشتہ روز بھی کیوں کھلی چھوٹ دی گئی۔ 22اگست کو ایم کیو ایم کے بانی نے اسی طرح کی ہرزہ سرائی کی تھی جس پر فوری ایکشن بھی لیا گیا اور آج وہ تنہا ہو چکے ہیں ایم کیو ایم پاکستان پاکستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ ان سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے لیکن یہ کیسا دو طرفہ عمل ہے کہ سندھو دیش کے نعرے لگانے والے اور پاکستان کو برا کہنے والوں کو کسی بھی حکومت نے کچھ نہیں کہا اور وہ دیدہ دلیری سے بھارتی ایجنٹ بن کر پاکستان کے تعلیمی اداروں اور سندھ کے مختلف شہروں میں آزادی سے رہ رہے ہیں۔ سندھ کے مختلف شہروں دادو، میہڑ، خیرپور ناتھن شاہ، چمبڑ، جیکب آباد، سن ، جامشورو، کوٹری، قاسم آباد، نواب شاہ، جھنڈو مری، پڈ عیدن ، عمر کوٹ، اپر سندھ اورکراچی کے علاقوں سچل ، صفورا، مختلف گوٹھوں ، ابراہیم حیدری، ہاکس بے، ماڑی پور پر سندھو دیش اور جئے سندھ کی چاکنگ نظر آتی ہے۔ جبکہ جامشورو سے دادو تک سن ، خانوٹ، یہ سب علاقے سندھودیش تحریک کا مرکز ہیں ۔ سندھ یونیورسٹی انکی تربیت گاہ اور انکی سہولت کاری کا مرکز تصور کئے جاتے ہیں ۔موجودہ حالات کے تناظر میں جبکہ پاکستان کے خلاف لائن آف کنٹرول پر سات ماہ کے دوران 580سے زائد حملے ہوچکے ہیں جس میں سیکڑ وں پاکستانی اور افواج پاکستان کے جوان اور افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ پاکستان کے جغرافیائی حالات بھی سخت تشویش ناک ہیں ۔ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات خراب ہیں ٹرمپ اور انکی انتظامیہ پہلے ہی سے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف رحجانات رکھتے ہیں۔ پاکستان میں سی پیک کی تعمیر کے بعد پاکستان کے مخالف ممالک کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ جبکہ ایک طویل عرصے سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک ہے جس کے ہزاروں نوجون ، سیکیورٹی اہلکار، افواج پاکستان کے جوان ، افسران، رینجرز اہلکار، پولیس اور عام شہری شہید کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف ہر اول دستہ کا کردار بھی ادا کیا ہے ۔ لیکن بھارتی جارحیت کے حوالے سے امریکہ کی خاموشی اور بھارتی وزیر اعظم کی پذیرائی نے پاکستان کو مز ید خطرات کا شکار کردیا ہے ۔ پاکستان جب بھی مقبوضہ کشمیر کی حمایت کرتا ہے اسکابدلہ ارباب اقتدار بھارت پاکستان میں لائن آف کنٹرول پر حملوں اور پاکستان میں دہشت گردی کرکے کرتے ہیں ۔ چین سے بھی دشمنی نکالی جا رہی ہے۔ کیونکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ سی پیک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ گوادر کی ترقی سے بین الاقوامی طاقتیں بھی خوش نہیں ہیں ۔ ڈرون حملوں پر پاکستان کی حکومت اور افواج پاکستان کے ردعمل پر بھی وہ قوتیں ناراض ہیں جو پاکستان کی خود مختاری کو روکنا چاہتی ہیں۔ پاکستان نے مختلف آپریشن کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑی ہے ۔ اس وقت بھی آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ لیکن پاکستان کے خلاف سازشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ کبھی مہاجر لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن آرمی کی خبریں چلتی ہیں ۔ کبھی بم دھماکوں اور دہشت گردی سے پشاور اور کوئٹہ کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست داں اور حکومت کو اقتدار اور انکی اپنی سوچ کے مطابق ایجنڈے پر چلنے کی فکر ہے ملک میں اتحاد اور ایک پرچم سائے تلے جمع ہونے والی سوچ کا فقدان نظر آتا ہے ۔ عمران خان نے کبھی کوشش نہیں کی کہ کے پی کے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔ انہیں صرف نواز شریف کی کرسی اور پگڑیاں اچھالنے کی سیاست کی فکر رہتی ہے۔حیرت اس بات کی ہے کہ سندھو دیش کے نعروں اور بلوچستان میں بھارتی عزائم پر وفاق اور صوبہ سندھ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ ملک میں جتنا بڑاگناہ 22اگست 2016کو بانی ایم کیو ایم نے کیا ۔ اتنا بڑا گناہ سندھو دیش کے سرپرست بھی کر رہے ہیں اور حکومت بالخصوص پیپلز پارٹی اس جرم میں برابر کی شریک ہے ۔ پی پی پی کی حکومت کو ان افراد کو کچل دینا چاہئے جو پاکستان کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں ۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں ۔ یہاںیہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ اے این پی کے اسفندر یار ، کے پی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سمیت بہت سے سیاست داں اپنے احتجاج یا جوش خطابت میں پاکستان کے لئے ایسے الفاظ ادا کر چکے ہیں جو انتہائی قابل گرفت ہیں اس لئے سب کو قانون کے کٹہرے میں ہونا چاہئے۔ خواہ وہ نواز شریف ، پی پی پی ، ایم کیو ایم لندن، پی ٹی آئی، اے این پی، جسقم ، قوم پرست دیگر جماعتیں یا مضبوط ترین سیاست داں ہوں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی کسی کو اجازت نہیں ہونا چاہئے۔
پاکستان مخالف نعروں پر وفاق اورسندھ حکومت کی خاموشی کیوں؟
Jul 25, 2017