حقِ ہمسائیگی!

ہمسایہ کا حق اس اعتبار سے فائق ہوتا ہے کہ آپ دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن ہمسایہ تبدیل کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا۔ اگر ہمسایہ نیک ہو بدطنیت نہ ہو، ریاکار اور خودغرض نہ ہو تو آدمی چین کی نیند سوسکتا ہے، ہر قسم کے ذہنی خلفشار سے بچا رہتا ہے۔ بالفرض ہمسایہ بدنیت اور جھگڑالو ہو، حریص ہو تو پھر نہ دن چین سے کٹتا ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ عمرانی معاہدہ اُس وقت زیادہ ڈسٹرب ہوتا ہے جب ایک سے زیادہ ہمسایے ہوں اور آپ چاروں اور ان میں گھرے ہوئے ہوں۔ اس حقیقت کا افراد کے علاوہ ملکوں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کیلئے ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے جو معروضی حالات سے ہم آہنگ ہو جو ملکی مفاد کو مقدم رکھے ‘جامد نہ ہو اور جس میں وقت اور حالات کے تحت ردوبدل کیا جاسکتا ہو۔ خارجہ پالیسی بذات خود مقصد نہیں ہوتی یہ حصول مقصد کا ذریعہ ہے۔ مقصد ہمیشہ ملکی مفاد ہونا چاہیے۔ ڈپلومیسی ایک گنجلک آرٹ ہے جو اکثر اخلاقی ضابطوں کی پابند نہیں رہتی، اسی لئے کہا گیا ہے کہ جیسے خشک پانی نہیں ہوتا، لکڑی سے بنا ہوا لوہا نہیں ہوتا، اسی طرح مجسم اخلاق ڈپلومیسی بھی نہیں ہوا کرتی۔پاکستان جب 1947 میں معرضِ وجود میں آیا تو اس نے اپنے آپکو چار ہمسایوں میں گھرے ہوئے پایا۔ ہندوستان‘ افغانستان‘ ایران اور چین ۔ پہلے تین ملکوں کے ساتھ تو اس کا ہزار میل سے لمبا بارڈر ہے۔ چین کے ساتھ نسبتاً مختصر ہے اور دشوار گزار بھی! دونوں طرف آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارا سب سے بڑا اور مشکل ہمسایہ ہندوستان ہے۔ ہندو کے لغوی معانی کالا کے ہیں، حافظ نے کہا تھا۔ بخال ہندویش بخشم سمرقند و بخارا را۔ وہ اگر آج کے ہندوستان کو دیکھتا تو یہ شعر اپنے دیوان سے خارج کردیتا۔ یہ لوگ جتنے اُوپر سے کالے ہیں اس سے کہیں زیادہ ان کا من سیاہ ہے۔ سمجھ نہیں آتی انہیں ہو کیا گیا ہے مسجدیں ڈھاکر مندر بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، رام کے پرچارکوں میں نام کی انسانیت بھی نہیں ہے۔ گائے کو ماتا سمجھتے ہیں لیکن بیل کو پِتا ماننے سے یکسر انکاری ہیں۔ سیکولر ریاست کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے عقیدے اور مسلک کے تحت زندگی گزارے۔ انہوں نے بیس کروڑ مسلمانوں سے وہ حق بھی چھین لیا ہے۔ وہ شودروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں آج مہاتما گاندھی کی آتما کو یقینا تکلیف ہورہی ہوگی جس ہندوستان کا انہوں نے خواب دیکھا تھا اسکی تعبیر اُلٹ نکلی ہے ۔ انکا جانشین مودی جیسا شخص ہے جو مجسم تعصب ہے۔ ہولی خونِ مسلم سے کھیلتا ہے۔ دیوالی ان کے گھر جلا کر مناتا ہے۔ چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار بنایا کرتا تھا۔ ا کا بس چلتا تو یہ انکے ہار گلے میں ڈالتا۔ چائے فروش کے بیٹے میں چاہت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کا خمیر نفرت، کدورت ،ظلم اور بربریت سے اُٹھا ہے۔
ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا۔ یہ مجدد الف ثانی‘ امیر کبیر سید علی ہمدان‘ نظام الدین اولیائ‘ خواجہ اجمیر‘ سید علی ہجویری‘ شاہ لطیف بھٹائی‘ بہائو الدین زکریا و دیگر ان کی تعلیمات کی وجہ سے دلوں میں گھر کر گیا۔ شاہان وقت بالخصوص دونوں نے اسکی حوصلہ شکنی کی۔ اکبر جیسے ہندو مغل اعظم کہتے ہیں دین الٰہی جیسی اختراع کا مرتکب ہوا۔ جودھا بائی کے بیٹے جہانگیر سے کیا توقع رکھی جاسکتی تھی۔ ایک ہزار سال تک ہندو اور مسلمان ساتھ ساتھ رہے۔ اس طویل عرصے میں بھی ان میں یگانگت اور بھائی چارے کی فضا پیدا نہ ہوسکی۔ یہ مسلمانوں کو ملیچھ سمجھتے تھے۔ چونکہ مسلمان حاکم تھے، ہندوئوں نے منافقت سے کام لیا اور اپنے خبث باطن کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ انگریز نے جب ہندوستان میں قدم جمانے شروع کئے تو ان کے اندر کا ہندو ایک بھرپور انگڑائی لیکر بیدار ہوگیا۔ 1857کی جنگ آزادی میں انہوں نے کھل کر انگریز کا ساتھ دیا اور اس جدوجہد کو غدر کا نام دیا ۔ اگر یہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ایک پھونک ہی مار دیتے تو ’’سفید فام مچھیرے‘‘ بحر ہند میں غر ق ہوجاتے۔ نتیجتاً انگریز نے انہیں خوب نوازا اور مسلمانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا۔1947 میں برصغیر کی تقسیم کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر دونے بھرپور کوشش کی کہ ملک تقسیم نہ ہونے پائے۔سالمیت کے حق میں مدفون منطق اختیار کی گئی۔ کئی بُودی دلیلیں دی گئیں۔ چند مسلمان عالم بھی کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی وجہ سے ان کے ہمنوا ہوگئے۔ بالفرض انکی نیت پر شک نہ کیا جائے تو بھی انکی سوچ یقینا ہدف تنقید بن سکتی ہے۔ جید علماء میں قابل ذکر مولانا ابوالکلام آزاد اور حسین احمد مدنی ہیں۔ ہندوئوں نے دکھاوے کیلئے مولانا آزاد کو کانگرس کا صدر بنا دیا۔ قائد اعظم انہیں Show Boy Of Congress کہتے تھے۔ مٹی کا مادھو! یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے بعد انہیں ’’کھڈے لائن‘‘ لگا دیا گیا۔ ایک بے ضرر سا عہدہ۔ ان کی کتاب Indian Freedom پڑھیں تو بین السطور ایک ہی تاثر ذہن میں اُبھرتا ہے۔
میں پشیماں ہوں‘ پشیماں ہے میری تدبیر بھی
مولانا حسین احمد نے تو وطنیت اور قومیت پر ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی اُن کا ٹاکرا علامہ اقبالؒ سے ہوتا تھا۔ علامہ کے درج ذیل دو شعروں نے علمیت کی قلعی کھول دی۔
قلندر جز دو حرف لا اِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لُغت ہائے حجازی کا
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
عجم ہنوز نداند رموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد! ایں چہ بوالعجبیست
سرود برسرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خیرز مقام محمد عربیست
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبیست
ان تمام سازشوں‘ ریشہ دوانیوں اور فکروں چالوں کو ایک فرد واحد نے ناکام بنا دیا۔ اس شخص کا نام محمد علی جناحؒ تھا۔ تمام مسلمان انکے پیچھے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہوگئے۔ قائداعظم ؒ عزم وہمت، حوصلہ، تحمل و بردباری کا استعارہ تھے۔ انگریز اور ہندو حیران تھے کہ ایک شخص تمام عمر کیسے راست روی اور راست گوئی میں گزار سکتا ہے۔ اپنے مسلک کا احترام کرتا ہے۔ اپنے سنہری اصولوں سے سرِ مُو بھی انحراف نہیں کرتا۔ جس کا ہر فرمان مُستند ہے اور منفرد بھی!
جب انگریز اور ہندوئوں نے دیکھا کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے تو وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ سازشی ذہنوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو ایک لولا لنگڑا ملک دیا جائے۔ ایک ایسا ملک جو معاشی طور پر مفلوج ہوکر رہ جائے اور جس میں جغرافیائی وحدت نہ ہو۔ مولانا آزاد کے بقول سردار پٹیل کا خیال تھا کہ آزادی کے چند برسوں کے بعد ہی پاکستان قائم نہیں رہ سکے گا۔ مسلمان گڑ گڑا کر ہاتھ جوڑ کر ہندوئوں سے کہیں گے۔ ’’مہاراج! شما کریں! ہم سے بھول ہوگئی ہے۔ واپسی کا دروا کردیں۔ ان عزائم کی تکمیل کیلئے انگلستان کے ایک ناکام وکیل ریڈ کلف سے بائونڈری ایوارڈ کے نام پر آڑی ترچھی لکیریں کھنچوائی گئیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی۔ ہندو مہاراجہ سے بروز شمشیر الحاق کروایا گیا جب لوگوں نے اس ظلم اور زیادتی کیخلاف ہتھیار اٹھائے تو واضح شکست کو دیکھتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور استصواب کا وعدہ کیا جو آج تک پورا نہیں ہوا۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن