’’بدقسمتی‘‘

مکرمی! ہمارے ہاں ضلع گجرات کے گائوں کے زمیندار کا بیٹا آج سے قریباً پچیس سال قبل حصول روزگار کے لئے گرتا پڑتا بے شمار تکالیف اٹھائے جرمنی پہنچ گیا۔ اُس کا عزیز وہاں اپنا ریسٹورنٹ چلا رہا تھا۔ وہیں سہارا مل گیا۔ سخت محنت دن رات کی مشقت سے اس کے مقدر جاگے اور خوب پیسے کمائے۔ گائوں والا گھر بنایا، مزید زمین خریدی، گائوں میں بڑا نام ہوگیا۔ باپ نے بیٹے سے مشورہ کیا اور باپ نے ناظم کا الیکشن لڑا اور پرانے چوہدریوں کو ہرا دیا۔ بیٹے نے فوراً پاکستان آنے کا فیصلہ کیا کہ اپنے والد اور خاندان کی خوشیوں میں شامل ہوسکے۔ ایک مہینے تک جشن منایا گیا۔ بیٹے نے فیصلہ کیا کہ وہ چھ مہینے پاکستان میں رہیں گے اور چھ مہینے جرمنی میں۔ اپنے والد کے ناظم منتخب ہونے پر اسے اور خاندان کو جو خوشی ملی، بیٹا بھی ان خوشیوں میں شامل رہنا چاہتا تھا۔ ادھر ہمارے ہاں پاکستان میں بڑے بڑے سیاستدانوں کے بیٹے برطانیہ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ بچے پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ کاروبار اپنے ملک سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے والد کو پاکستان کا سب سے بڑا عہدہ ملنے سیاست دان بننے کی خوشی میں شامل رہنا بھی انہیں پسند نہیں۔ یہ کتنی بدقسمتی ہے، ایسے تمام بچے پاکستان میں رہ کر اپنے والد کی خوشیوں کو شیئر کریں، ان کا ہاتھ بٹائیں، ساتھ ساتھ کاروبار بھی کریں۔ (شیخ محمد شفیق، مسلم بازار، گجرات)

ای پیپر دی نیشن