عرصہ دراز کے بعد قلم اُٹھایا اور جب کچھ تحریر کرنے بیٹھا تو محسوس ہوا کہ خیالات منجمد ہو چکے ہیں اور سوچیں اور ذہن قلم کا ساتھ نہیں دے رہے پھر ایک ایسا خیال آیا کہ آج کل ملکی حالات میں جو ہلچل ہے سرکاری محکمے ہوں، ٹی وی والے ہوں یا قلمکار ہر مسئلے پر اپنی بصیرت اور کبھی کبھی اپنے مفادات کے پیش نظر اُس کا ترجمہ کر کے سیدھے سادھے ذہنوں میں انتشار پیدا کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اِسی سوچ کے پیش نظر سوچا کہ مختلف روایات، حکایات، واقعات اور جگ بیتیوں جو عموماً کسی سوچ کو واضع کرنے کے لئے ہوتی ہیں اُن کی باسکٹ بنا کر قارئین کے سامنے رکھ دی جائے پھر جس کا جیسے جی چاہے اُس میں سے اپنا اپنا مطلب نکال کر اپنا اُلو سیدھا کرے۔
بریگیڈیئر دارا پاکستان ہاکی کا ایک بہت بڑا نام تھا اور اُن کی ہاکی کے لئے خدمات کو تاریخ سنہری حروف سے لکھے گی۔
حسب روایت کوئی کسی کو اُجلے کپڑے پہنے دیکھ کر بھی اپنا حسد روک نہیں سکتا اور بہانے بہانے سے اظہار ناپسندیدگی کر دیتا ہے۔ اُن کے دور میں ہاکی کا ایک میچ ہاتھ سے نکلا تو یار لوگ اُس کے خلاف سازشوں، بیان بازی اور دشنام طرازی پر اُتر آئے۔ اُن کے کمزور کردار چاپلوس ساتھی ایک ایک کرکے انہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگنے لگے تو اخبار والوں نے بریگیڈیئر صاحب سے اُن کے ساتھیوں کے بھاگنے پر اُن کا تبصرہ مانگا تو بریگیڈیئر دارا نے کیا خوب تاریخی حقیقت بیان کر دی کہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے سمندر میں چھلانگیں لگاتے ہیں۔ (آج کل کی سیاسی ادل بدل کو سامنے رکھیں)
عز ت مآب میر صاحب والئی حیدر آباد لندن کے کسی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ اُس زمانے میں کمپیوٹر یا موبائل یاٹیلیویژن ابھی نہیں آئے تھے۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ اُنہیں دو بوتلیں خون فوری لگانے کی ضرورت ہے۔ میر صاحب نے کہا کہ پتہ کرو کہ یہاں کوئی رائل فیملی کا فرد ہے۔اُس زمانے میں BBC ریڈیو پر بڑے اعلانات ہوئے لیکن شومئی قسمت رائل فیملی کا کوئی بندہ لندن میں نہ ملا۔ دو بوتل خون لگنے سے اُن جان بچ سکتی تھی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ جناب آپ کے بلڈ گروپ کا خون ہمارے پاس کافی ہے۔ ذرا دھیان رہے کہ موت سامنے کھڑی ہے تو اس فولادی اعصاب اور شاہی روایات کے پاسدار نے کہا کہ نہیں۔ میں شاہی خون میں کسی دوسرے خون کو شامل نہیں کروا سکتا اور فرمایا ’’Let me Die‘‘ اور دنیا چھوڑ گئے۔
عموماً روایت ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی بڑا حادثہ رونما ہو جائے تو محکمے کا نمبر1 بندہ اس کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر ڈال کر اپنے عہدے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے جیسا کہ عرصہ قبل ایک ہمسایہ ملک میں ریل ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ریلوے کے سیکریٹری نے رات کو 2 بجے اُن کو اطلاع دی کہ دارالخلافہ سے 2 ہزار میل دور ریل ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ اتنا جانی نقصان ہوا ہے۔ وزیر نے اُسی وقت سیکریٹری کو استعفیٰ لکھوایا صبح اپنا اٹیچی اُٹھایا اور سرکاری رہائش گاہ خالی کر دی۔ہمارے یہاں کوئی آٹھ دس سال قبل ایک زبردست ریل ایکسیڈنٹ ہوا ۔ کافی نقصان ہوا۔ اخبار والوں نے اُس باتونی وزیر سے پوچھا تو جناب آپ کب استعفیٰ دیں گے۔ اُس نے کہا کس بات کا استعفیٰ میں کوئی ٹرین ڈرائیور ہوںکافی عرصہ قبل میں اپنے بنک کی طرف سے ضلع شیخوپورہ کا چیف تھا کہ میرے دفتر میں اچھے بُرے بڑے چھوٹے سب لوگ رونق افروز ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ایک رینکر بڑے افسر سے میں نے پوچھا کہ آپ بڑے جابر پولیس آفیسر ہو کبھی آپ بھی کسی ملزم سے ’’چالو‘‘ ہوئے ہوں۔کہنے لگے ہاں اوڈ قوم جو جھگیوں میں رہتے ہیں صبح کہیں شام کہیں۔ ایک اوڈ چور تھا جس نے اپنی کارروائیوں سے پولیس کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بڑی دفعہ اُسے پکڑنے کے لئے چھاپے ناکام ہوئے۔ اوپر سے ہماری زبردست کھچائی ہوئی تھی۔
کرنا خدا کا وہ ایک دفعہ قابو آگیا حکم دیا گیا کہ اُس پر بلارُکے زبردست تشدد کے ذریعے وارداتوں کی کارروائی اُگلوائی جائے۔ پولیس کا عملہ تشدد کرکے تھک گیا تو وہ چور بالآخر بدتمیز لہجے میں بولا۔ بس اور شوق پورا کر لو یعنی اُس نے پولیس کو یہاں بھی چالو کردیا۔ خیر خود ہی اُس نے آفر کی کہ مجھے چرغہ کھلائو میں سب بتا دوں گا۔ پولیس والا کہنے لگا کہ ہم نے شکر ادا کرتے ہوئے اُسے چرغہ کھلایا، دودھ پتی پلائی پھر وہ دانتوں میں خلال کرنے لگا۔ہم بے چینی سے اُس کی سٹوری سننے کے لئے تیار تھے۔ فارغ ہو کر وہ پولیس سے مخاطب ہوا۔ ’’لو بھئی جوانوں پہلے تم مجھ سے یہ منائوکہ میں نے آپ کا چرغہ کھایا ہے۔ ’’لو کر لو گل۔‘‘
پارٹیاں بدلنے والوں کا حال کچھ یوں ہے کہ کسی قصبے میں ایک خاتون نے باری باری سات شادیاں کیں۔وجہ یہ تھی کہ ہر دفعہ اُس کا خاوند فوت ہو جاتا تھا۔ دوسری طرف اُسی قصبے کے ایک شخص نے بھی سات شادیاں کیں اور باری باری اُس کی ساتوں بیگمات اللہ کو پیاری ہوتی گئیں تو لوگوں نے سوچا اب ان دونوں کی شادی کروا کر دیکھتے ہیں کس کی کِلی اُڑتی ہے اور شادی کی رات نکاح خواں فوت ہوگیا۔ اب دیکھیں یہ پارٹی بدلو کس کو لیتے ہیں۔پرانے زمانے میں فوجیں جب جنگوں پر جاتی تھیں تو فوج کو جوش دلوانے کے لئے اُن کے آگے آگے نفیریوں والے ہوتے تھے جو مختلف دُھنیں بجا کر سپاہیوں کا جنگی جنون بڑھاتے تھے۔ جنگ میں اگر تو اپنی فوج جیت جائے تو ٹھیک اور اگر دشمن جیت جائے تو یہ جَست لگا کر جیتی فوج کے آگے آگے نفیریاں بجاتے تھے۔
مطلب یہ کہ وہ ہمیشہ جیتنے والے لوگوں کے آگے ہی رہتے تھے۔ ہماری ملکی سیاست میں اگر نظر دوڑائیں تو آپ کو نفیریوں والوں کی فوج ظفر فوج دیکھنے کو ملے گی۔