کچھ قارئین کی طرف سے اصرار ہے کہ جنرل راحیل شریف اور اسلامی عسکری اتحاد پر اپنا موقف بیان کروں چند روز پہلے سینٹ میں چیئرمین میاں رضا ربانی اور سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی طرف سے ’’قطر پرابلم‘‘ کی روشنی میں اسلامی عسکری اتحاد اور جنرل راحیل شریف کی قائدانہ حیثیت کے بارے میں مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز کو طلب کر کے سینیٹ میں شدید تنقید کی گئی یہ اس لئے بھی ہوا کہ جنرل راحیل شریف ریاض سے نجی معاملات کے لئے چار دن کے لئے لاہور اور اسلام آباد میں موجود تھے ان کا خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچنا ہمارے جمہوری و سیکولر رویوں اور سعودیہ کے لئے تعصب رکھنے والوں کے لئے نادر موقعہ تنقید بن گیا۔ ’’قطر پرابلم‘‘ میں ’’ان کو‘‘ سعودیہ کا رویہ جارحانہ اور قطر سے سعودی‘ بحرینی‘ اماراتی‘ مصری مطالبات میں صرف ’’عظیم ظلم‘‘ نظر آیا مگر انہیں وہ ’’شتہیر‘‘ جو نہایت معمولی جغرافیے کے حامل قطر اور آل ثانی نے الجزیرہ کے ذریعے مسلسل اپنایا ہوا ہے۔ افسوس کہ یہ ’’شتہیر‘‘ ان پاکستانی آنکھوں میں ذرا سی بھی تکلیف اور درد پیدا نہیں کرتا بلکہ سعودیہ و بحرین و امارات و مصر کا معمولی سا ’’تنکا‘‘ بائیکاٹ ان کی آنکھوں میں مسلسل تکلیف پیدا کر رہا ہے ہے حیرت و تعجب ہے ہمارے اس روئیے پر چونکہ ا سلامی عسکری اتحاد کی تشکیل کا تصور‘ فکر اور نظریہ الحمدﷲ صرف ہمارا تخلیقی وہ عمل ہے جو ہمیں 2003ء میں ریاض سے واپسی پر حکمت کے فکری تحفے کے طور پر عنایت الہی تھا لہذا اس تصور و فکر و خیال کو ہم نے مسلسل لکھا یہ بھی حکمت الہی ہی تھی کہ شاہ سلمان کا اقتدار آیا اور ان کے متحرک و فعال لخت جگر محمد نے بطور وزیر دفاع اس تصور کو قبول کیا اور جنرل راحیل شریف انہیں ایسے عسکری اسلامی اتحاد کے لئے نہایت موزوں کردار نظر آئے۔ جنرل راحیل شریف کا سعودی وژن میں نمایاں مقام پانا تو وہ نعمت رب جلیل ہے جو اہل پاکستان کو بغیر کسی محنت کے عطاء ہوئی۔
ہمارا موقف ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں نیا کردار صرف جنرل راحیل کے ذریعے مل رہا ہے ورنہ ہماری اوقات کیا؟ سوویت یونین آف رشیا‘ ایٹمی طاقتور ترین ایمپائر ہونے کے باوجود صرف اقتصادی اور قیادت بحران کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوا تھا۔ آج ہمیں اپنی اقتصادی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ سے بار بار دھوکہ کھانے والے عربوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے۔ سعودیہ ‘ امارات‘ بحرین ‘ مصر کے قطر کے حوالے سے جائز موقف کی تائید کرنی چاہئے اگر ایسا ممکن نہیں تو جنرل راحیل شریف کی صورت میں ملے ’’ عظیم تحفہ‘‘ کی ہی قدر کرنی چاہئے۔ یہ عظیم تحفہ ہمارے لئے ’’من و سلویٰ‘‘ ہے جو بنی اسرائیل کو عطائے رب جلیل کے طور پر ملا مگر انہیں تو ’’دالوں‘ پیاز‘ لہسن وغیرہ‘‘ کی کشش ستاتی رہی تھی قطر کے حوالے سے فعال ترین کردار امارات کا ہے۔ امارات کی تکلیف یہ ہے کہ اس کے تین جزیروں پر رضا شاہ پہلوی نے قبضہ کیا جو موجودہ عہد میں دائمی ہو چکا ہے۔ متکبر شاہ نے پاکستان کو بھی بتا دیا تھا کہ اپنے ہاں کے بلوچوں کو سنبھالو ورنہ ایرانی فوجیں پاکستانی بلوچستان میں داخل ہو جائیں گی امارات اور سعودیہ و بحرین میں شدید محبت اور مکمل مفاہمت ایرانی جارحانہ ایجنڈے اور عزائم کے سبب بھی ہے جبکہ قطر نے سمجھا کہ وہ پڑوسی بڑے عرب ممالک کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتا رہے گا۔ امارات کا موقف رہا ہے کہ قطر نے 2013ء میں جن شرائط کے ساتھ سعودیہ سے مفاہمت کی تھی اور 2014ء میں سب ممالک کے سامنے سعودیہ معاہدے پر عمل کی یقین دہانی کرائی تھی اب اس پر عمل ہونا لازمی بات ہے۔ ایران سے قطع تعلق (جو کہ ہمارے وجدان میں مکمل ختم ہونا ناممکن ہے) ایران کے تین جزیروں پر قبضے اور عراق و شام میں اپنی فوجیں داخل کرنے‘ یمن میں حوثی پراکسی کے ذریعے اور جنرل صالح کے سیاسی عزائم کا مددگار بنتے ہوئے ایرانی فوج داخل کرتے ہوئے جو کچھ کیا ہے اب ایران بحرین میں بھی عملاً فوج داخل کرے گا۔ یہ ہے ایران سے عرب مفاہمت میں اصل رکاوٹ۔
اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش اسی سبب شدت سے عرب متحدہ موقف کو مسلسل بیان کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اماراتی رویہ فی الحال تو درست ہے ترک صدر طیب اردوان نے جدہ میں شاہ سلمان اور ولی عہد محمد اور امیر کویت الشیخ صباح الاحمد الصباح سے ملاقات کی جبکہ سوموار کو وہ قطر میں تھے۔ یوں ان کا دورہ اگرچہ مثبت قدم ہے مگر شاید اسے کامیاب نہیں کہا جا سکتا ان کی آمد کے باوجود امارات نے قطر کے حوالے سے امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے تازہ بیان کو ’’اچھا‘‘ کہا ہے کہ مگر اصل سعودیہ دشمن رویے اور ایرانی ایجنڈے کے مددگار بنے رہنے سے ’’رجوع‘‘ کا مطالبہ دہرایا ہے۔ اگرچہ ہمیں ترک عوام‘ ترک سرزمین سے بہت محبت ہے تاہم ہم سوال کر سکتے ہیں کہ صدر اردوان نے انقلاب کے نام پر معصوم ٹیچروں‘ پروفیسروں اور ان جرمن قومیت رکھنے والے ترکوں جو سیاسی عزائم رکھتے ہیں اور وہ کرد جو گولن فہم دین کے سیکولر رویے کے حامل ہیں اور وہ میڈیا جو ترک صدر کی روش کا شدید نقاد ہے پر کیوں شب خون مارا ہے؟ اگر وہ قطر کی صلح کے لئے اصرار کرتے ہیں تو پہلے انہیں اپنے ہاں کی حکومتی روش میں تبدیل لانی چاہئے۔ شام کے حوالے سے صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن میں جی20 اجلاس کے دوران جو خفیہ طویل ملاقاتیں ہوئیں وہ ثمر آور ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے صدر اوبامہ کا بشارالاسد مخالفوں کو تربیت اور اسلحہ دینے کا راستہ چھوڑ دیا ہے اور یہ مہربانی صدر پیوٹن کو مطمئن اور خوش کرنے کے لئے ہے۔ یوں بشار الاسد اور حزب اﷲ نے دل کھول کر القاعدہ پھر النصرہ فرنٹ اور اب تحریر الشام کے جنگجوؤں کا لبنانی شامی سرحد پر بھی صفایا کرنا ممکن پایا ہے۔ جبکہ روسی صدر نے جو کچھ امریکہ کو جواب کے طور پر دیا ہے وہ یہ ہے کہ بشار الاسد ایران اور حزب اﷲ سے خود کو اب دور کرے اور دوبارہ سے عربوں کے لئے قابل قبول نہ سہی قابل برداشت تازہ رویہ تو پیش کرے۔ گویا عربوںکے حمایت یافتہ اگر شام میں امریکی مدد سے محروم ہوئے ہیں تو بشارالاسد سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حزب اﷲ اور ایران سے دوری اختیار کرے۔
کیا بشار الاسد ایرانی فوج اور حزب اﷲ گوریلوں کو نکل جانے کا کہہ سکے گا ؟ پچھلے دنوں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ سعودیہ اور ایران مل جل کر خطے میں امن و استحکام واپس لا سکتے ہیں۔ ہم اس دن کو دیکھنے کے متمنی ہیں جب ایران میں تدبر و فراست کا مکمل ظہور ہو گا‘ وہ اپنا مسلکی‘ انقلاب برآمدی رویہ اور عرب ممالک میں عدم استحکام کی کوشش چھوڑ کر علاقائی عرب وجود و حقائق کی ’’نیشن اسٹیٹس‘‘ کو تسلیم کرے گا۔ ایران میں مذہبی حکمران قیادت اور جمہوری و عوامی وجود میں کشمکش اور تصادم ظہور میں آتا رہا ہے۔ ایک پیش رفت عراق و ایران میں دفاعی معاہدہ جبکہ عراقی حکمران العابدی کا دورہ سعودیہ اور شاہ سلمان سے ملاقات اور عراق و سعودیہ میں دہشت گردی کیخلاف معلومات کا معاہدہ بھی علاقائی مدوجزر ہیں۔