سپریم کورٹ کا فیصلہ پھر محفوظ!

سپریم کورٹ نے پانچ دن مسلسل پانامہ کیس کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔ حکومت نے رپورٹ کو چیلنج کیا جبکہ تحریک انصاف نے رپورٹ پر عملدرآمدکی بات کی۔ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ میچ کھیلے بغیر ٹرافی لینے کیلئے سپریم کورٹ چلی گئی اور مسلسل پانچ دن سماعت کے موقع پر موجود رہی۔ لیڈڑشپ کو کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ پارٹی کو بحال کرنے کیلئے کیا کرے۔ کبھی جلسوں کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی گو نواز گو کا نعرہ لگاتے ہیں اور اندر خانے ملے ہوئے ہیں۔ جھوٹ کے کوئی پائوں نہیں ہوتے اس لئے راستہ نہیں ملتا۔ بہرحال کوئی کچھ بھی کرے آج حکومت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ہے تو اس کی اپوزیشن تحریک انصاف۔ عدالتی سماعت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے زور و شور سے شروع ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کے مطالبے میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ وکلاء بھی شامل ہوگئے ہیں اور سڑکوں پر آگئے جبکہ حکومتی ارکان نے وزیراعظم کو ڈٹ جانے کا مشورہ دیا جس پر وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ مستعفی نہیں ہونگے اور نہ ہی اپوزیشن کے سامنے سرنڈر کرونگا۔ سپریم کورٹ جو فیصلہ کریگی اسے قبول کیا جائیگا، حکومت کا کسی سے محاذ آرائی کا ارادہ نہیں۔ استعفیٰ مانگنے والے سن لیں دبائو میں آکر استعفیٰ نہیں دونگا اور نہ ہی قومی اسمبلی توڑونگا۔ جنہیں عوام نے باربار ٹھکرایا وہ استعفیٰ مانگ رہے ہیں۔ ہم سے پوچھنے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم پر ایک پیسے کی کرپشن کا بھی داغ نہیں سر جھکانا نہیں سیکھا۔ استحصال ہورہا ہے۔ جے آئی ٹی اور پی ٹی آئی کا احتساب کوئی نہیں مانے گا۔ جمہوریت کی قبریں کھودی گئیں۔ پانامہ سرکس لگا ہے۔ الزام لگانے والے منہ دھو کر آئیں۔ اقتدارکے بھوکے الیکشن 2018 کی تیاری کریں۔ چور دروازے سے آنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد عمران خان نے پھر کہا کہ نواز شریف کے پاس اقتدارسے رخصتی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ اس لئے ازخود منصب سے الگ ہوجائیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ تاریخ کا اہم ترین فیصلہ عدالت نے محفوظ کرلیا ہے جو بہت جلد سنا دیا جائیگا۔ پارلیمان اور عدالت سے جھوٹ پر جھوٹ بولنے کے باعث نواز شریف پاکستان کو لیڈ نہیں کرسکتے۔ عدالتی فیصلے سے قبل ہی مستعفی ہوجائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ نوازشریف نااہل بھی ہونگے اور جیل بھی جائینگے۔ پاپا اور پاپی کے سب دن گنے جاچکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 21 جولائی کو سماعت مکمل کی تو فاضل جج صاحبان نے کہا کہ قانون کے دائرے میں رہ کر لہروں کے خلاف بھی تیرنا ہو تو تیر لینگے۔ اس کیس میں ہم قانون سے باہر نہیں جائینگے۔ سب کے بنیادی حقوق کا احساس ہے جس چیزکی آئین اور قانون نے اجازت نہیں دی وہ نہیں کرینگے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ ایک طرف متنازعہ ہونے کا کہا جارہا ہے تو دوسری طرف اس بات پر بھی فخر کیا جارہا ہے کہ رپورٹ میں وزیراعظم پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اورنہ ہی نواز شریف پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام ہے۔ چلو اچھی بات ہے کہ رپورٹ کے کچھ حصے کو تو تسلیم کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات شریف خاندان کے حوالے سے ہوئیں تو سب سے دلچسپ بات یہ بھی آئی کہ اسحاق ڈارکی آمدن پانچ سال میں 9 ملین سے بڑھ کر 836 ملین ہوگئی۔ مجھے لگتا تھاکہ یہ سب الزامات ہیں لیکن اسحاق ڈارکے وکیل نے عدالت میں اس کی تردید نہیں کی۔ میںنے اسحاق ڈارکے کاروبار کی تفصیل اپنے دوست اور بھائی رانا صفدر جوکہ دبئی کے معروف بزنس مین ہیں ان سے پوچھی تو انہوں نے بتایاکہ دبئی میں اسحاق ڈار کے اتنی کمائی والے پانچ پلازہ ہیں یہ تو کچھ بھی نہیں دیکھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے فیصلے کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتاہے؟ فی الحال تو ظفرحجازی کی قسمت کا یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ان کی ضمانت منسوخ ہوگئی ہے اور ایف آئی اے نے انہیں گرفتار کرلیا ہے۔ نیشنل بنک کے صدر سعید احمد بھی خطرے میں ہیں۔ سرکاری ملازمین کو قانون کے دائرے میں رہنا چاہئے۔ سیاسی حکومت کی خاطر غلط کام کرنے کی بجائے ریاست کا ملازم ہونا چاہئے۔ حکومتی ارکان نواز شریف کی نااہلیت بچا پاتے ہیں یا نہیں لیکن اس بات پر بہت خوش ہیں کہ عمران خان منی ٹریل پیش نہیں کرسکا اور اب عمران خان بھی نااہل ہونگے جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور اس کے معاملے میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ کسی کے بھی نااہل ہونے پرخوشی نہیں منانی چاہئے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ منی ٹریل پیش نہ کرنے میں ناکام ہیں۔ سیاستدان اگر فرشتہ نہیں ہوتے تو اس کے قریب قریب ہوتے ہیں اور لوگ ان کو یہی خیال کرتے ہیں۔ اس لئے تو لاکھوں لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ دنیا میں جہاں پر بھی جمہوری نظام ہے وہاں پر سیاستدان فرشتے ہیں لیکن خردبرد یا عہدے کا غلط استعمال ہو جائے تو معافی نہیں ملتی۔پانامہ لیکس اور پانامہ کیس کیسے سامنے آیا اور اس پر کیا ہوا اور کیوں ہوا اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن اب سچ یہ ہے کہ سپریم کورٹ پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کرے بدقسمتی سے عدالتوں کا ماضی داغدار ہے۔ میں انتہائی دکھ سے کہہ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ نے ہی نظریہ ضرورت پیدا کیا اور فوجی آمر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ سپریم کورٹ نے ہی ماضی میں ڈکٹیٹرز کے اقدامات کو درست قرار دیا اور ڈکٹیٹرز کے جانے کے بعد اسکے خلاف فیصلہ دیا۔ بھٹوکے خلاف فیصلے کو آج تک کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ ملک میں جمہوریت کا استحکام نہ ہونا جہاں سیاستدانوں کی غلطیاں ہونگی وہاں ججوں نے بھی بڑا رول ادا کیا ہے۔ جمہوریت کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا اور اگر جمہوری نظام ڈی ریل ہوتا رہے تو ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ کو بڑے سوچ سمجھ کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا۔ کسی کے نااہل ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن نہ صرف انصاف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ سپریم کورٹ ہماری آخری اُمید ہے۔ دنیا میں کوئی شخص ناگزیر نہیں ہے شخصیت کا ضرور فرق پڑتا ہے لیکن شخصیت کی تبدیلی سے ضروری نہیں کہ ابتری ہو بلکہ بہتری بھی ہوسکتی ہے۔ میں اس تھیوری سے اتفاق نہیں کرتا کہ CPEC کو روکنے کیلئے سازش ہورہی ہے کیونکہ یہ الزام تو بھارت پر ہے۔ وہی تو ایک ملک ہے جس کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی مگر موجودہ حکومت تو بھارت اور وزیراعظم مودی کے بہت قریب ہے۔ نواز شریف پر تو یہ الزام ہے کہ وہ کشمیر کے ایشو کو حل کئے بغیر بھارت سے دوستی چاہتا ہے۔ اس لئے سازش کی بات نہیں کرنی چاہئے، چاہے وہ الزام سی پیک کو ختم کرنے کا ہو یا فوج کے حوالے سے ہو۔ بہرحال امیدکرنی چاہئے کہ سپریم کورٹ کا غیر محفوظ فیصلہ ملک کیلئے خیرخواہی لائیگا اور اچھی بات یہ ہے کہ نظام کو ختم کرنے کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ ریاست کی رکھوالی کرنے والے کسی طرح بھی جمہوریت کی بساط لپیٹنا نہیں چاہتے اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ حکمران اور اپوزیشن فوری الیکشن نہیں چاہتے اگرچہ فوری الیکشن موجودہ حکومت کو suit کرتا ہے کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آ بھی جائے تب بھی فوری الیکشن میں مسلم لیگ(ن) جیت جائیگی۔ سپریم کورٹ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے کہ کس کو فائدہ ہوتا ہے اور کس کو نقصان۔ انہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ سنانا ہے مجھے یقین ہے کہ یہ ایسا فیصلہ ہوگا جس کے بعد احتساب کا دائرہ وسیع ہوجائیگا۔ لوگوں کا احتساب پر یقین ہوگا اور یہ بھی احساس ہوگا کہ بڑے سے بڑے کی بھی پکڑ ہوسکتی ہے۔ لوگ تو اس بات پر بھی خوش ہیں کہ پچھلے ایک سال سے زائد عرصہ میں جس طرح احتسابی عمل ہوا ہے اس کی کم از کم پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے ملک میں تو بڑے آدمی کا احتساب ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ہمیں آج اچھے کی امیدکرنی چاہئے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ کا غیرمحفوظ فیصلہ زیادہ عرصہ محفوظ نہیں رہے گا کیونکہ ملک کی کشتی رکی ہوئی ہے فیصلہ کچھ بھی ہو، ملک کی کشتی چلنی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن