میں طلوع ہو رہا ہوں

پاکستان کے عوام آج اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے جا رہے ہیں یہ وہ حق ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جدوجہد سے حاصل ہوا کہ 1970 سے قبل پاکستان میں ایک فرد ایک ووٹ کا نظام رائج نہ تھا ،یوں بھٹو صاحب نے رعایا کو عوام اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ بنایا۔ در حقیقت جب جب پاکستا ن میں سیاسی میدان سجتا ہے اور حاکموں کی حاکمیت عوام کی رائے کے مرہون منت ہوتی ہے تب تب ہر ووٹ کی پرچی پر لگنے والا ہر ٹھپہ یہی نعرہ بلند کرتا ہے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘‘1970کی انتخابی مہم میں پہلی دفعہ سیاسی جماعتوں نے منشورکی بنیاد پر حصہ لیا اور پاکستان میں سماج کو سیاسی تحرک ملا اسکے نتائج کو جنرل یحییٰ خان نے سبوتاژ کیا نتیجتاًملک دو لخت ہو گیا اگر سیاسی قوتوں کو موقع دیا جاتا تو پاکستان بھی متحد رہتا اور جمہوریت کو فروغ ملتا۔
بہرحال سیاسی قیادت نے اجتماعی شعور کے تحت پارلیمان کے ذریعہ ملک کو متفقہ آئین دیا اور شاندار روایات قائم کرکے جمہوری تسلسل کو فروغ دیا لیکن طالع آزما197 7 کے انتخابات میں سازش کے ذریعہ جمہوری نظام کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے اور ملک بدترین آمریت کا شکار ہو گیا۔ آج کا سماج ہر لحاظ سے اس بدترین دور کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے اس ابتری تک پہنچا ہے 1985کے انتخابات کو غیر جماعتی بنا کر بلدیاتی سطح کی قیادت کو ملکی سطح پر سپورٹ کیا گیا۔ کرپشن ، ذات برادری، دھونس دھاندلی کی بنیاد پر مصنوعی سیاسی قیادت تیار کی گئی۔ 1988ء کے انتخابات ظاہری طور پر تو آمریت کے سایہ میں نہ تھے مگر آمریت کے بغل بچے اور ہمنوا کسی کے لاڈلے بن کر دولت اور اختیار کی بدولت انتخابات میں دندنانے لگے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملکی مسائل کے حل پیش کرتے ہوئے ملک میں سیاسی تحرک پیدا کیا اور پیپلز پارٹی فتح مند ٹھہری مگر ضیاء باقیات نے محترمہ کی بھرپور اکثریت کو صرف انتخابی سادہ برتری تک محدود کر دیا اور صوبہ پنجاب جو پاکستان کا تقریباً62%بنتا ہے وہاں چھانگا مانگا آپریشن کے تحت پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے سے روک دیا گیا اور نواز شریف سب سے بڑے صوبے کا حکمران ہونے کے باوجود اپوزیشن لیڈر بنا رہا۔ ۔ 20ماہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اور مشہور زمانہ اصغر خان کیس والے1990کے انتخابات ہوئے۔ اور پرائم منسٹر سیلیکٹ نے خود کو پاکستان کا لارڈ میئر ثابت کیا کہ امور خارجہ، داخلی سلامتی معیشت ،عوامی فلاح، غربت، جہالت کا خاتمہ ترجیحات میں شامل ہی نہ تھا۔ اپنے ہاتھوں کے بنائے پتھر کے صنم خود کو خدا سمجھ بیٹھے تو تصادم ہوا اور 1993سے 1996کے دوران پیپلز پارٹی اور بی بی شہید کو کچھ عرصہ حکومت کا موقع ملا۔ جمہوریت آگے بڑھی عوامی حقوق کا حصول ممکن ہوا اور عوام کو خوشحالی میسر آئی ملک بین الاقوامی طور پر بہتر حیثیت میں آ گے بڑھنے لگا۔ پھر سازش ہوئی اور نواز شریف نے ایک دفعہ پھر سازشی ایوان صدر کے ساتھ مل کر ووٹ کی بے عزتی کا اپنا مشن پورا کیا اور دوبارہ 1997میں نام نہاد بھاری مینڈیٹ کی متکبر اصطلاح استعمال ہونے لگی اور خود ہی اس بھاری مینڈیٹ تلے آکر دب گئے اور ملک کو دوبارہ ایک دہائی تک آمریت کے حوالے کرکے خود ڈیل کرکے جدہ سدھارے۔ آمریت کے بعد کے دس سال کی سب سے بڑی کامیابی دو اسمبلیوں اور حکومتوں کا اپنی مدت پوری کرنا ہے اور تیسری منتخب حکومت بنانے کیلئے کل عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ 25جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات کی انتخابی مہم مجموعی طور پر نفرت،شر ،الزام تراشی، تشدد، بدزبانی بلکہ غلیظ زبان کے استعمال سے یرغمال اورپیٹ پھاڑ دوں گا، گھسیٹوں گا۔ لٹکا دوں گا جیسے انتقامی اور پر تشدد نعروں کی تاریخ کے ساتھ میدان میں ہیں اور دہائیوں تک ووٹ کی تذلیل کرنے کے بعد نعرہ پر فریب، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ہے۔ بڑے بھائی کو بحفاظت اڈیالہ جیل پہنچانے تک اپنی انگلی بھی گاڑی سے باہر نہ نکالی اور اب کچھ مقتدر حلقوں کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ میں مزاحمتی سیاست نہیں کرتا بلکہ میں تو کہتا ہوں خدمت کو ووٹ دو ۔دوسری طرف ملک میںپرانے لاڈلے کی انتقام و خون کی نام نہاد سیاست کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ ملک کی تمام حکومتوں میں شریک بے ضمیروں کا نیلام گھر لے کر عوام الناس کو تبدیلی کی نوید سنائی جا رہی ہے۔پرانے لاڈلے سے نمٹنے کیلئے انوکھا لاڈلا تخلیق کیا گیا ہے۔ جو ہر مخالف کو ہر طریقے اور حربے سے میدان سے باہر کرنا چاہتا ہے تاکہ ’’سنجیاںہون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘
انکے پاس نہ کوئی نظریہ ہے نہ کوئی پالیسی اور نہ ہی کوئی سیاسی تاریخ اورمیراث ،مخالفین پر گند اچھالنے کے علاوہ اپنی ذات کی خوبیاں تو موجود نہیں ایک بودی دلیل ضرور ہے کہ سب کو موقع ملا ہے اب مجھے بھی موقع دو۔ اسکے علاوہ کوئی منطق اور دلیل پیش نہیں کی گئی۔ اس مایوس کن صورتحال میں ایک آواز نے پاکستان کے باشعور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے ہاتھ میں اپنا منشور پروگرام اور اُمید لے کر عوام تک پہنچا ہے۔ وہ عوام کے پرجوش اجتماعات میں بتاتا رہا کہ کیسے پیپلز پارٹی نے روزگار دے کر اور کسانوں کو خوش حال کرکے اور لوگوں کو بیرون ملک بھیج کر کیسے روٹی کپڑ ااور مکان کے وعدے کو آگے بڑھایا کیسے اُس کی بے نظیر ماں نے علم صحت اور سب کو کام کے عزم کو آگے بڑھانے اور کس طرح ایک جمہوری پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں۔
آج کی سیاست کے تمام کھلاڑی اپنا آخری انتخاب لڑ رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری اپنا پہلا الیکشن لڑ رہا ہے۔ پاکستان کے سب سے نو جوان رہنما کی نظر 60فیصد نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے پر ہے۔ وہ تعلیم کے بجٹ کو مجموعی پیداوارکے 5%تک لانا چاہتا ہے۔ نصاب میں اصلاحات، تعلیم میں جدت کے ذریعے وہ نوجوان کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ نوجوان پاکستان پروگرام کے تحت تعلیم یافتہ اہل نوجوانوں کیلئے انٹرن شپ پروگرام متعارف کروانے کی طرف گامزن ہے۔نیشنل والنٹیئرموومنٹ کے تحت وہ سارے صوبوں کے نوجوانوں کو اُخوت کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے۔ بلاول بھٹو عوام کے سامنے ایسی معیشت کی تعمیر نو کی بات لایا ہے جس میں معاشی مساوات کی بات ہو جہاں ریاست اپنے وسائل کا رخ مفلوک الحال طبقات کی طرف موڑے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں نئی جان ڈالنا اور اس کی توسیع، بے نظیر کارڈ، تخفیف غربت کا پروگرام اور بہت سے دوسرے پروگراموں کے ذریعہ معاشی مساوات کا نظام قائم کرنا ، مزدوروں اور کسانوں کیلئے اپنی روایات کے مطابق انقلابی پروگرام بلاول بھٹو کی ترجیح ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے بلاول بھٹولاڈلوں کی تصادم کی پالیسی کے برخلاف عوام اور اداروں کے درمیان تعلقات کی ہم آہنگی کا داعی ہے اور سچائی و مفاہمت کا کمیشن بنانے کا خواہشمند ۔ اپنے سیاسی تماشے اور مخالفین کو راہ سے ہٹانے کی بجائے وہ بلا امتیاز اور شفاف احتساب کا قائل ہے۔ اٹھارویں ترمیم پر مکمل عملدر آمد کے ذریعہ وفاق کی طرف سے یکطرفہ فیصلوں کے رجحان کاخاتمہ بلاول کے منشور کا حصہ ہے۔ جس میں فاٹا، گلگت، بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کی این ایف سی ایوارڈ میں شمولیت شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب میں نیاصوبہ ہو، فاٹا وپاٹا کا قومی دھارے میں شامل ہونا یا گلگت بلتستان میں اصلاحات ہوں وہ اپنی پچاس سالہ روایات کا امین ہے۔ خواتین کے حقوق ہوں، اقلیتوں کا استحصال ہو، معذوروں سے عدم توجہتی برتی جائے یا بچوں کے حقوق کا معاملہ ہو بلاول بھٹو سے زیادہ دلیر اور توانا آواز ان معاملات میں کوئی اور نہیں ہو سکتی، لہٰذابنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے بلاول بھٹو پر عزم ہیں۔ گزرے پانچ سالوں میں جب بغیر وزیر خارجہ کے ہماری ریاست کو گنگ کردیا گیا تو بلاول ہی واحد رہنما تھا جو خارجہ پالیسی کی بہتری کیلئے آواز اُٹھاتا رہا اپنی انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو نے دنیا میں اپنا جائز مقام لینے کیلئے متحرک جامع اور دور اندایش خارجہ پالیسی کی بات کی ہے۔ اور اپنے منشور پر اس میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ بلاول بھٹو کے نزدیک ہماری ریاست تو 70سال کی کم عمر ریاست ہے مگر ہماری تہذیب اور ثقافت صدیوں پر محیط ہے اور ہمارا ورثہ ہی ہمارا مستقبل ہے۔ کئی لوگوں کیلئے سیاسی منشور شائد ایک رسم ہو لیکن بلاول بھٹو کیلئے یہ اُس کی نسلوں کے مشن کی تکمیل کا راستہ ہے۔ اُس کی زندگی کا مقصد اپنی ذات کی ترویج نہیں بلکہ اپنی بے نظیر ماں کے عوام سے وعدے کی تکمیل سے منسوب ہے۔ جو پر امن خوشحال ترقی پسند اور باوقار پاکستان کا خواب ہے۔ آئیں نفرت کی آوازوں کو چھوڑ کر محبت کے پیغام کا ساتھ دیں اور ظلمتوں کے اندھیروں سے نکلنے کے لئے بلاول کے ساتھ چلیں۔
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن