تحریک احیائے دین کے تقاضے

آج پاکستان میں پھر انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے اسلامی جماعتیں زور آزمائی کررہی ہیںلیکن مذہبی جماعتوں میں اتحاد کا فقدان پایا جاتا ہے غیر اسلامی قوتیں ان اسلامی جماعتوں کو مزیدتقسیم کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔1970 اور 1977 میں دینی جماعتوں کے اتحاد نے بڑی کامیابی حاصل کی لیکن مغربی قوتوں کو وہ کامیابی ہضم نہ ہوسکی اور دینی جماعتوں کے ووٹ بینک کو ختم یا کمزور کرنے کے لیے منصوبہ شروع ہوا اور لوگوں کو پروپیگنڈا کے لیے پوری مشینری نے کام شروع کردیا کلاشنکوف، لسانی، علاقائی جماعتوں کو پروان چڑھا کر مذہبی ووٹ تقسیم کردیا اس دوران بڑی جماعت جو سیاسی طور پر ابھر کر سامنے آئی جسے 90% لوگوں کی حمایت حاصل تھی اس کی قیادت مولانا نورانی کررہے تھے اسے بھی عہدوں اور وزارتوں کا لالچ دے کر دو ٹکڑے کردیا۔ ایک مذہبی قوت نے تحفظ ناموس رسالت کے لیے بڑا اہم قدم اٹھایا اور تحریک ختم نبوت کے لیے تاریخ ساز کردار ادا کیالیکن کچھ قوتوں کو وہ بھی ہضم نہ ہو سکا اس نے جماعت نے پھر 1970 اور 1977 کی یاد تازہ کردی آج ضرورت اس بات کی ہے کہ قائد تحریک علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے رفقائے کار کو کامیاب کروایا جائے گا۔آج احیائے دین کی تحریک کو پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کے قیام کا تقاضا ہے بانی پاکستان کی جدوجہد اور سوچ کا تقاضا ہے یہ شہدائے پاکستان کی لاکھوں قربانیوں کا تقاضا ہے ۔(قاری حاکم دین اسلام آباد 0313-5449642)

ای پیپر دی نیشن