عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کو قرضہ دینے سے پہلے اس امر کی بڑی تشویش لاحق تھی کہ پاکستانی معیشت انتہائی گراوٹ کا شکار ہو رہی ہے اور اس کے روپے کی پسماندگی اس پورے خطے کو معاشی طور متاثر کر سکتی ہے لہٰذا یہ معاشی اجارہ دار ادارے یہ مشورہ بھی دے رہے تھے کہ عالمی سرمایہ داروں کو پاکستان میں کاروبار کی ترغیب دی جائے ایسے مشورے وہ ہر قرض لینے والے ممالک کو دیتے رہتے ہیں۔ ان کی مثال ایسے ہے جیسے گورکن لوگوں کے مرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہے کہ اچھی خوراک زندگی کو دوام بخشتی ہے بہرحال اس میں شک نہیں موجودہ غیر یقینی مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے جس سے غربت میں اذیت ناک اضافہ ہو رہا ہے جو ہنوز جاری ہے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کب اپنے پائوں پر کھڑا ہو گا کب تک ہم قرض کی مئے پیتے رہیں گے کب غریب آدمی بنیادی ضروریات زندگی سے بہرہ ور ہو گا ہمیں یہ کب سمجھ آئے گی کہ غربت ایک سائنس ہے اور اس کا خاتمہ بھی سائنٹیفک بنیادوں پر ہی ہوتا ہے۔
اگر تاریخ کے حوالے سے جائزہ لیں تو اس میں دو آرا نہیں ہو گی کہ امریکہ اور یورپ کی ترقی و خوشحالی کا راز صنعت کے فروغ میں تھا اور ہے یہ ممالک صنعت سازی کی وجہ سے ہی ویلفیئر اسٹیٹ کہلاتے ہیں جبکہ بدقسمتی سے پاکستانی صنعت سازی کو جن بنیادی عناصر نے مجروح کیا ہے ان کا تدارک نہیں کیا گیا قیادت کی بندش ، معاشی حکمت عملی کا قحط ، اقتصادی بانجھ پن، افراط زر کا بڑھنا، خریدار کی قلت اور عالمی منڈی سے دوری وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے ہمارا صنعتی نظام روبہ زوال چلا آ رہا ہے اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کو غربت کی ذلت سے نکلنے کے لیے تحقیقی فکر و نظر کی روشنی میں پرکھ نہیں کی گئی اس ضمن میں پاکستان سمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹری کے صدر بابر بٹ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مالی معاملات بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے آدھی آبادی خواتین کو جو گھروں میں بیکار بیٹھی ہیں انہیں غربت کے خاتمے کے لیے قومی دھارے میں شامل کر کے گھریلو صنعتوں کا جال بچھایا جائے اور پورے پاکستان میں ہر چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر سمال انڈسٹری زون بنائے جائیں اس سے کم از کم پچاس ہزار نوکریاں ملیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم دس افراد والی صنعت کو کاٹیج صنعت کا درجہ دیا جائے۔
صنعت سازی میں تین اہم درجات ہوتے ہیں بڑی صنعت ، درمیانی صنعت، چھوٹی گھریلو صنعت ہر ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات ہر وقت یکساں نہیں رہتے ۔ معاشی بدحالیوں سے نکلنے کے لیے مختلف حکمت عملیوں کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔ چین، تائیوان اور ملائشیاء نے غربت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے ملکوں میں درمیانی اور چھوٹی صنعت سے بڑی صنعت کی راہ ہموار کی انہوں نے درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کو آسان اقساط پر قرضے دئیے اور حکومتی سطح پر اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ان صنعتوں کی معیاری مصنوعات کو عالمی منڈی میں متعارف کروایا جائے گا اسی بنیاد پر چین کی معاشی حکمت عملی نے جاپان کی عالمی منڈی سے اجارہ داری ختم کی۔ یہ چھوٹی صنعتوں کا ہی اعزاز تھا کہ چین نے اپنے عوام کو غربت کی ہزیمت و خواری سے رہائی دلائی۔ انہوں نے باقاعدہ چھوٹی صنعت سازی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر لائحہ عمل تیار کیا جس کی وجہ سے چین آج دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔
پاکستان ساخت کے لحاظ سے ایک زرخیز اور معدنیات سے مالا مال ملک ہے جس میں غربت سے چھٹکارے کے لیے بے تحاشہ افرادی قوت کا سمندر بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے جس میں دس کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے بھی ہیں صرف لائحہ عمل کی ضرورت ہے ہر گائوں کی سطح پر کاٹیج انڈسٹری لگانے سے مقامی سطح پر روزگار ملے گا اور نوکری کے لیے شہروں میں جانے میں کمی واقع ہو گی۔ بنیادی طور پر لیڈر شپ کے قحط نے پاکستان سے معاشی ابتری کا خاتمہ نہیں ہونے دیا۔ ہم غربت کا حل غیر ملکی قرضوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ یاد رکھیں قرضوں سے قیامت تک ہم غربت سے نہیں نکل پائںی گے قوم پر رحم کریں اسے مزید دھوکے نہ دئیے جائیں۔ اگر پاکستان کو غربت کی ذلت سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ترقی یافتہ ممالک کے مالیاتی فارمومولوں کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے جدید تقاضوں کے تناظر میں افرادی قوت کو استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی جس صنعت کے لیے ضروری ہے المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی کشمکش اور دولت کی ہوس کی وجہ سے بڑی صنعت لگانے کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ یہاں چھوٹی صنعت لگانے میں بھی سرکاری و سیاسی پیچیدگی حائل ہونی شروع ہو جائیں یہاں تائیوان ، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور چین کی طرح درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعت لگانے کے رواج کو فروغ دیا جائے حکومتی سطح پر ان صنعتوں کو بجلی پانی اور گیس میں خصوصی چھوٹ دی جائے آسان شرائط (کم ریٹ) پر قرض دیا جائے اور اس امر کی ماہرین معاشیات، سمال انڈسٹری ایسوسی ایشنز اور پاکستان کے مختلف چیمبر آف کامرس سے مل کر ایسی حکمت عملی بنائی جائے کہ ان چھوٹی صنعتوں سے بنا ہوا مال یقینی طور پر عالمی منڈی تک پہنچایا جا سکے تاکہ مسابقت کا سفر شروع ہو سکے۔
پاکستان میں ٹیلنٹ اور افرادی قوت کی کمی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ہم اسے استعمال کرنے کی صلاحیت سے محروم رہے ہیں۔ آج غربت کے گرداب میں پھنسے ہوئے لوگوں کے وسیع تر مفاد میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چھوٹی صنعت غربت کو ختم کر سکتی ہے ہمیں ملک میں چھوٹی صنعت لگانے کا کلچر پیدا کرنا ہے ہمارے یہاں آج تک اجتماعی غربت دورکرنے کا کوئی پلان تشکیل نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں معاشی زوال پذیری کی وجہ سے چالیس فیصد سے زائد بڑی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور کچھ ہونے کو تیار ہیں۔ یورپ کی جی ایس پی پلس GENERALIZED SYSTEM PREFER PLUS سکیم کی وجہ سے پاکستانی صنعت کو تھوڑا بہت سنبھالا ملا ہے۔ معاشیات سے متعلقہ ادارے اور ماہرین اس امر پر نظر رکھیں کہ اگر آبادی اور غربت کی پیمائش کی جائے تو ہمارے یہاں درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ملک کی اکانومی حیران کن تک پسماندگی کی طرف جا رہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں ساٹھ فیصد کمی اور افراط زر کے اضافے نے پاکستانی معیشت کو تہہ و بالا کر دیا ہے جو لمحہ فکریہ ہے صنعت کسی بھی ملک کے مالیاتی معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو پاکستان میں عرصہ دراز سے عدم توجہ کا شکار ہے۔ پاکستان میں صنعت کا زوال ناقابل فراموش نقصان ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے چھوٹی صنعت کے لگانے سے لیکر، معیاری پروڈیکٹ کے بنانے تک کے اجزاء ترکیبی کو تحقیقی فکر و نظر کی روشنی میں پرکھا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ درمیانی، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی آبیاری سے ملک و قوم خوشحالی کے مراحل طے کر سکے۔